Tuesday, September 26, 2017

دنیا میں سب سے زیادہ جس مزھب کے خلاف سازشوں کے جال بچھاے جاتے ہیں وہ صرف اور صرف مزھب اسلام ہے,



 اگر اس قدر اندرونی اور بیرونی سازشیں کسی اور مزھب کے خلافت کی جاتیں تو یقینا وہ مزھب دنیا سے مٹ جاتا, مگر اسلام چونکہ اسے اللہ نے قیامت تک باقی رکھنا ہے, ان تمام تر فتنوں کے باوجود آج تک اپنی مکمل شان و شوکت کے ساتھ قائم ہے اور ان شاء اللہ قائم رہے گا, جس طرح اسلام کو اندرونی فتنے, اور سازشیں لاحق ہیں,جیسے باطل فرقے, اسی طرح بیرونی خطرات بھی ہیں, جیسے باطل مزاھب, ان میں سب سے عروج پر جو فتنہ ہے وہ الحاد کا ہے,الحاد سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی مختلف قسمیں ہیں, عام طور پر یہ لوگ اللہ تعالی کے وجود کے قائل نہیں ہوتے, اور جب انسان خدا کا ہی منکر ہوجاے تو پھر نبی, مزھب, اور آسمانی کتابوں کو محض انسانی خیالات شمار کرتا ہے, کیونکہ عقیدہ توحید اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے اس لیے بے حد ضروری ہے کہ ان کا رد کیا جاے, چونکہ ملحدین کتاب و سنت کو نہیں مانتے اس لیے اہل علم حضرات کو چاہیے کہ عقلی دلائل اور سائنسی تحقیقات کی روشنی میں انکا رد کریں, اس لیے فقیر کی یہ خواہش ہے کہ اہل علم حضرات کی توجہ اس طرف مبزول کرائ جاۓ, ان شاء اللہ ہماری یہ تحریر بچوں کے لیے کہانی ہے طلباء کے لیے معلومات ہے, اور اہل علم حضرات کے لیے دعوت فکر ہے...
الحمد للہ ہم مسلمان ہیں اور ہمارا یہ روشن  و ظاہر عقیدہ ہے کہ ہر چیز کا خالق اللہ تعالی ہے, اور وہ خود ہمیشہ سے ہے, ہمارا یہ عقیدہ ایک تو کتاب و سنت سے ثابت ہے, دوسرا یہ کہ کائنات پر غور فکر کرنے سے بلآخر ہمارا عقیدہ ہی ثابت ہوتا ہے, وہ لوگ جو خالق کہ قائل نہیں, توحید کے سوال سے جان نہیں چھڑا سکتے, کہ یہ انسان کی فطرت میں ہے کہ جب وہ بے بس ہوجاتا ہے تو آگے ایک طاقت کو مانتا ہے, ملحد خود جیتی جاگتی, چلتی پھرتی خالق کے وجود و قدرت کی دلیل ہے,  جیسا کہ قرآن میں ہے :
بھلا تم کیسے خدا کے منکر ہوگۓ کہ تم مردہ تھے, اس نے تمہیں زندہ کیا, پھر تمہیں مارے گا, پھر زندہ کرے گا, پھر اس کی طرف لوٹاۓ جاو گے".
(سورہ بقرہ)

کائنات میں کسی بھی چیز کے وجود میں آنے کے تین طریقے ہیں یا کوئ چیز اتفاقی طور پر خود بخود وجود میں آگئ, یا اس نے خود کو خود ہی پیدا کیا, یا خالق نے اسے تخلیق کیا, اس آیت میں منکرین خدا کو دعوت دی گئ ہے کہ تم خود آپنے آپ پر غور کرو کہ تم مردہ تھے, اپنی پیدائش سے پہلے تم بے جان پانی تھے, تو کیا تم خود محض اتفاق سے پیدا ہوگۓ? یا تم نے خود اپنے آپ کو پیدا کیا ہے?
نہیں بلکہ فاحیاکم اس نے تمہیں پیدا کیا..تو جب تم خود پیدا نہیں ہوے, نہ تم نے خود کو پیدا کیا تو ساری کائنات کیسے خود پیدا ہوگئ?
اس موضوع کو مختلف پہلووں سے زیر بحث لایا جاسکتا ہے, لیکن ہم یہاں صرف کائنات کی تخلیق اور وسعت بیان کر کے عقلی دلیل قائم کرینگے, ملحدین کے نزدیک آج سے تقرہبا چودہ ارب سال پہلے ایک دھماکہ ہوا تھا جسے بگ بینگ کا نام دیا جاتا ہے, جب کہ سائنس کہتی ہے کہ زمین کی پیدائیش کو چار ارب(4000,000,000) سال ہو چکے ہیں, اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چودہ ارب سال پہلے ہونے والے دھماکے کے دس ارب سال کے بعد اپنی تمام تر خصوصیات کے ساتھ صرف زمین ہی کیوں اور کیسے وجود میں آئ?
جب کہ پیلا سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ جب کچھ بھی نہیں تھا تو وہ کیا چیز تھی جس سے دھماکہ ہوا?
ہمارے نزدیک یقینا یہ ایک من گھڑت مفروضہ ہے, اب ہم کائنات کی ترتیب اور وسعت بیان کر تے ہیں تاکہ واضح ہو جاے کہ اتنی وسیع کائنات خود بخود کیسے وجود میں آسکتی ہے جب کہ ایک چھوٹا سا گھر خود بخود  وجود میں نہیں آسکتا?
 ہم جس سیارے پر رہتے ہیں اسے زمین کہا جاتا ہے,اب تک کی سائنسی تحقیق کے مطابق پوری کائنات میں صرف یہی ایک سیارہ ہے جہاں مکمل طور پر زندگی موجود ہے,اور زندگی کی تمام لوازمات موجود ہیں, اور کائنات میں موجود اربوں کھربوں سیاروں میں بلخصوص زمین کو  انسانی زندگی کے لیے تخلیق کیا گیا ہے, انسان کو سانس لینا ضروری ہے تو زمین پر ہوا مہیا کی جس میں اکیس فیصد آکسیجن ہوتا ہے جو سو فیصد انسان کے لیے مفید ہے, اگر ہوا میں آکسیجن چند فیصد بڑھا دیا جاے تو سانس لینا مشکل ہوجاے گا جب کہ جنگلوں میں آگ لگ جاے گی, پھر زمین کا مناسب درجہ حرارت رکھا, جو اوسطا 15 C ہوتا ہے, کم سے کم (منفی) -89 C اور زیادہ سے زیادہ 57 C ہوتا ہے جو کہ زندگی کے لیے مناسب ہے, جب کہ دیگر سیاروں پر شدید سردی یا شدید گرمی کی وجہ سے زندگی ممکن نہیں ہے,جسے ہم آگے قدرے تفصیل سے بیان کرینگے, پھر زمین پر انسان کے کھانے کے لیے ہزار ہا اقسام کے اناج مثلا گندم,چاول,دالیں,پھل, سبزیاں وغیرہ پیدا کی,جن کو مختلف رنگ اور ذائقے دیۓ, مختصر یہ کہ انسان کی زندگی سے وابسطہ ہر قسم کا سامان مہیا فرمایا, جب کہ دیگر سیاروں پر اب تک کی تحقیق کے مطابق زندگی ممکن نہیں ہے,اب اسے محض اتفاق کہدینا آنکھیں بند کرکے سورج کے انکار کے مترادف ہے, یہاں ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا کائنات میں انسان اکیلا ہے?
یا کوئ اور مخلوق بھی ہے جو دور کسی سیارے میں بستی ہو اور ہمیں ان کا علم نہ ہو, تو ہم کہتے ہیں کہ ایسا ممکن ہے, اور ہوسکتا ہے کہ کہیں دور کسی سیارے پر کوئ مخلوق بستی ہو, جنہیں عام طور پر خلائ مخلوق (Aliens) کہا جاتا ہے, قرآن میں صراحت کے ساتھ تو ان کا ذکر نہیں ہے لیکن ہم چند آیات کی روشنی میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ شرعی طور پر خلائ مخلوق کا وجود ممکن ہے, چنانچہ قرآن میں ہے:
"الحمد للہ رب عالمین ".

"تمام تعریفیں اللہ کے لیے جو عالمین کا پالنے والا ہے"
بے شک زمین پر موجود ہر جان دار کو رزق دینے والی ذات اللہ کی ہے لیکن فرمایا عالمین کا پالنے والا ہے, یعنی اگر سائنس دس یا بیس سالوں میں خلائ مخلوق کو تلاش کر لیتی ہے تو پھر بھی اسلام ہی کی حقانیت ظاہر ہوگی, کہ انھیں پالنے والی بھی وہی ذات ہے جو دنیا کو پال رہی ہے,ایک سوال یہ ہوتا ہے کہ کیا خلائ مخلوق شرعی احکام کے مکلف بھی ہے? تو اس کے جواب ہم کہتے ہیں کہ اللہ نے انسان اور جن کو عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے, تو اگر خلائ مخلوق انسان ہیں, یا جنات کی قسم سے ہیں تو مکلف ہوئیں, اور نہیں تو پھر ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں اللہ اعلم...
قرآن میں ہے:

" یخلق اللہ ما یشاء "
(النور,45)

اس آیت اور اس جیسی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ ہر چیز کا خالق ہے جو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے  ممکن ہے دور کسی سیارے میں کوئ مخلوق پیدا فرمائ ہو.
دوسری طرف سائنسی تحقیقاتی اداروں کا بھی یہی کہنا ہے کہ خلائ مخلوق کا وجود ممکن ہے, اور ہم اس کی کھوج میں لگے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ دس سے بیس سال کے اندر ہم خلائ مخلوق سے رابطہ قائم کر لینگے,جب کہ بعض سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ خلائ مخلوق کے پاس انسانوں سے زیادہ ٹیکنالوجی موجود ہے اور انھوں نے ہم پر نظریں رکھی ہوی ہیں,( ہمارے نزدیک یہ درست نہیں ہے, بلکہ محض انکی قیاس آرائیاں ہیں) بعض سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ خلائ مخلوق کے جس سیارے پر ہونے کے امکانات ہیں وہ زمین سے اتنا دور ہے کہ وہاں پہنچنا ممکن نہیں ہے, حاصل کلام یہ کہ شرعی اعتبار سے اور سائنسی تحقیقات کے مطابق خلائ مخلوق کا وجود ممکن ہے.
بہر حال خلائ مخلوق کا وجود بھی اللہ تعالی کے خالق و مالک ہونے کی دلیل ہوگا.
ہمارا نظریہ یہ ہے کہ اللہ ہر چیز کا خالق ہے جیسا کہ قرآن میں ہے:
"کل اللہ خالق کل شئ"

"فرمادو اللہ ہر چیز کا خالق ہے".

چنانچہ انسان,چرند و پرند, نباتات,زمین آسمان,زمین سے باہر پوری کائنات میں اور کائنات سے آگے جو کچھ ہے ان تمام کا خالق اللہ تعالی ہے, جو لوگ اللہ کو خالق مانتے ہیں ان کے پاس ہر سوال کا جواب ہے لیکن جو لوگ تخلیق کے قائل نہیں ان کے پاس سواے من گھڑت کہانیوں کے کچھ نہیں ہے, وہ اس قدر وسیع کائنات کو کہہ دیتے ہیں کہ دھماکے سے بن گئ, جب کہ ہر انسان جانتا ہے کہ دھماکے کے نتائج بے ترتیب ہوتے ہیں, جب کہ کائنات پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ پوری کائنات بلخصوص اس نیلے سیارے کو خاص مقصد کے لیے بنایا گیا ہے, اور یہ ہوری کائنات کسی کے کنٹرول میں ہے, کہ جب ایک چھوٹی سی کمپنی کا نظام بغیر انتظامیہ کے نہیں چل سکتا تو اتنی وسیع کائنات کیوں کر خود رواں دواں ہوسکتی ہے, یہاں ہم کائنات کی وسعت بیان کرینگے تاکہ معلوم ہو کہ ایک رب ہے جو بڑی قدرت والا ہے,جسکے قبضے میں یہ ساری کائنات ہے, ہماری زمین کے ارد گرد سورج سمیت چند سیارے ہیں, جنھیں ہم شمسی نظام کہتے ہیں,اس نظام شمسی میں کل 9 سیارے ہیں, سائنسی اصطلاح میں سورج کو ستارہ کہا جاتا ہے, ستارے خود چمکتے ہیں, جب کے سیاروں میں اپنی روشنی نہیں ہوتی, سورج سے سب سے قریب سیارہ عطارد (mercury مرکری) ہے, مرکری کا درجہ حرارت سورج کے قریب ہونے کہ وجہ سے 227 C ہے, اس سے آگے سیارہ زہرہ (Venus) ہے, چونکہ وینس پر فضاء موجود ہے جو سورج کی گرمی اپنے اندر جزب کرلیتی ہے اس لیے اس کا درجہ حرارت مرکری سے زیادہ 260 C ہے, اس سے آگے ہماری زمین ہے جیسے نیلا سیارہ کہا جاتا ہے, چونکہ زمین کے تین حصوں میں پانی ہے اور ایک حصے پر دنیا آباد ہے تو پانی کی کثرت کی وجہ سے زمین نیلی نظر آتی ہے, زمین سے آگے سیارہ مریخ (Mars) ہے, سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ مارس پر پانی موجود ہونے کے امکانات ہیں, اور جہان پانی ہوگا وہاں زندگی ہوگی, سائنسی تحقیق کے مطابق تقریبا چوبیس سو (24,00) سیاروں پر پانی موجود ہونے کے امکانات ہیں, ایک سوال زہن میں آتا ہے کہ آخر سائنس دان کسی اور سیاروں پر زندگی کیوں تلاش کررہے ہیں? اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین اپنے اختتام کی طرف جارہی ہے اور تقریبا تین ارب (3,000,000,000) سال بعد مکمل طور پر زمین سے آکسیجن ختم ہوجاےگی, جس کے نتیجے میں دنیا ختم ہوجاے گی,تو ممکن ہے وہ کسی اور سیارے کی تلاش میں اس لیے ہوں کہ وہاں رہائش اختیار کی جاے, لیکن ہمارے زہن میں ایک بچکانہ سوال آتا ہے کہ اگر کسی سیارے پر پانی اور مناسب ماحول مل جاتا ہے تو کیا وہاں امریکا جیسا ملک آباد کیا جاسکتا ہے?
مارس سے آگلا سیارہ مشتری (Jupiter) ہے, سورج سے دوری کی وجہ سے اسکا درجہ حرارت منفی ایک سو پینتالیس (-145 C) ہے,اس سے آگے سیارہ سیٹرن ( Saturn)ہے, اس سیارے پر ہوا کی رفتار 1800 کلو میٹر فی گنٹہ ہے, جہاں کھڑا ہونا ممکن نہیں ہے, اس سے آگے یورینس اور نیپچیون سیارے ہیں, اور نظام شمسی کا آخر سیارہ پلوٹو ہے, جس کا درجہ حرارت منفی دو سو اڑتس (-238 C) ہے, گویا وہ ایک برف کا گولا ہے,اور ان سیارں میں آپس میں لاکھوں میل کا فاصلہ ہے, چنانچہ زمین سے سورج کا فاصلہ چودہ کروڑ,پچانوے لاکھ, اٹھانوے ہزار کلو میٹر, (14,95,98000) ہے اور حیرت انگیز بات یہ کہ سورج سے نکلنے والی روشنی جس کی رفتار تین لاکھ ( 3,00,000) کلو میٹر فی سیکنڈ ہے, صرف پانچ منٹس آٹھ سیکنڈ میں زمین پر پہنچ جاتی ہے, سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسے کون چلاتا ہے? کیا یہ خود چلتی ہے? جب کہ زمین پر رینگنے والی ایک سائکل خود نہیں چل سکتی.یہ ہے ہمارا شمس نظام جو کائنات میں وہی حیثیت رکھتا ہے جو سمندر کے آگے ایک قطرے کی ہے, اسی قسم کے سیاروں اور ستاروں سے مل کر ایک کہکشاں (Galaxy)  بنتی ہے, جس کہکشاں میں ہماری زمین موجود ہے اسے ملکی وے کہا جاتا ہے,یعنی دودھیا راستہ, ہماری کہکشاں کتنی بڑی ہے اسکا اندازہ یوں لگائیں کہ ہماری ملکی وے میں سترہ ارب (17,000,000,000) سیارے ہیں,اور ایک کھرب (1,000,000,000) ستارے ہیں,ہمارا سورج بھی ایک ستارہ ہے, جب کہ تمام ستارے سورج ہیں,جو کہ دوری کی وجہ سے اتنے چھوٹے نظر آتے ہیں, اور ان کے اپنے شمسی نظام بھی ہیں,جس طرح زمین پر میل سے فاصلے ناپے جاتے ہیں خلاء میں نوری سال سے فاصلوں کا تعین ہوتا ہے, روشنی جو کہ (300,000) کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے,جب ایک سال تک سفر کرتی رہے تو وہ ایک نوری سال کہلاتا ہے، اور ہماری کہکشاں کی چوڑائ ایک لاکھ( 100,000) نوری سال ہے, مزید یہ کہ کائنات میں صرف ایک کہکشاں نہیں ہے, ہماری کہکشاں ملکی وے کے برابر میں ایک اور کہکشاں ہے جس کا نام اینڈرومیڈا ہے, اس کی چوڑائ دو لاکھ (200,000) نوری سال ہے,کہکشاوں کا یہ سلسلہ جاری ہے چنانچہ سینتالیس ہزار (47,000) کہکشائیں ملکر ایک جھرمٹ (Cluster) بناتی ہیں, ہماری کہکشاں جس کلسٹر میں ہے اسے ورگو کلسٹر کہا جاتا ہے, پھر سو (100) کلسٹر مل کر ایک سپر کلسٹر بناتے ہیں, اور کائنات میں اب تک کی تحقیق کے مطابق ایک کروڑ (1000,0000) سپر کلسٹر ہیں, یہ ہے کائنات کا وہ حصہ جہاں تک سائنس کی رسائ ہوئ, سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ چودہ ارب نوری سال کے فاصلے تک ہماری تحقیق جاری ہے, پھر بھی ہم کہتے ہیں کہ اگر سائنس کائنات کو پار کر کے آسمان تک پہنچ بھی گئ تو پھر بھی قرآن کی ہی حقانیت ثابت ہوگی کہ اللہ تعالی فرماتا ہے:

"ثم استوی الی السماء فسوھن سبع سموات"

" پھر آسمان کی طرف قصد فرمایا تو سات آسمان بنا دیے".

خلاصہ یہ کہ یہ تمام نشانیاں, صرف اسی کا پتہ دیتی ہیں اور بس...
[24/09, 10:32 a.m.] واحد اللہ کی ذات باقی 😊😊😊: "اللہ خالق کل شئ"

(حصہ 1)

دنیا میں سب سے زیادہ جس مزھب کے خلاف سازشوں کے جال بچھاے جاتے ہیں وہ صرف اور صرف مزھب اسلام ہے, کہ اگر اس قدر اندرونی اور بیرونی سازشیں کسی اور مزھب کے خلافت کی جاتیں تو یقینا وہ مزھب دنیا سے مٹ جاتا, مگر اسلام چونکہ اسے اللہ نے قیامت تک باقی رکھنا ہے, ان تمام تر فتنوں کے باوجود آج تک اپنی مکمل شان و شوکت کے ساتھ قائم ہے اور ان شاء اللہ قائم رہے گا, جس طرح اسلام کو اندرونی فتنے, اور سازشیں لاحق ہیں,جیسے باطل فرقے, اسی طرح بیرونی خطرات بھی ہیں, جیسے باطل مزاھب, ان میں سب سے عروج پر جو فتنہ ہے وہ الحاد کا ہے,الحاد سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی مختلف قسمیں ہیں, عام طور پر یہ لوگ اللہ تعالی کے وجود کے قائل نہیں ہوتے, اور جب انسان خدا کا ہی منکر ہوجاے تو پھر نبی, مزھب, اور آسمانی کتابوں کو محض انسانی خیالات شمار کرتا ہے, کیونکہ عقیدہ توحید اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے اس لیے بے حد ضروری ہے کہ ان کا رد کیا جاے, چونکہ ملحدین کتاب و سنت کو نہیں مانتے اس لیے اہل علم حضرات کو چاہیے کہ عقلی دلائل اور سائنسی تحقیقات کی روشنی میں انکا رد کریں, اس لیے فقیر کی یہ خواہش ہے کہ اہل علم حضرات کی توجہ اس طرف مبزول کرائ جاۓ, ان شاء اللہ ہماری یہ تحریر بچوں کے لیے کہانی ہے طلباء کے لیے معلومات ہے, اور اہل علم حضرات کے لیے دعوت فکر ہے...
الحمد للہ ہم مسلمان ہیں اور ہمارا یہ روشن  و ظاہر عقیدہ ہے کہ ہر چیز کا خالق اللہ تعالی ہے, اور وہ خود ہمیشہ سے ہے, ہمارا یہ عقیدہ ایک تو کتاب و سنت سے ثابت ہے, دوسرا یہ کہ کائنات پر غور فکر کرنے سے بلآخر ہمارا عقیدہ ہی ثابت ہوتا ہے, وہ لوگ جو خالق کہ قائل نہیں, توحید کے سوال سے جان نہیں چھڑا سکتے, کہ یہ انسان کی فطرت میں ہے کہ جب وہ بے بس ہوجاتا ہے تو آگے ایک طاقت کو مانتا ہے, ملحد خود جیتی جاگتی, چلتی پھرتی خالق کے وجود و قدرت کی دلیل ہے,  جیسا کہ قرآن میں ہے :
بھلا تم کیسے خدا کے منکر ہوگۓ کہ تم مردہ تھے, اس نے تمہیں زندہ کیا, پھر تمہیں مارے گا, پھر زندہ کرے گا, پھر اس کی طرف لوٹاۓ جاو گے".
(سورہ بقرہ)

کائنات میں کسی بھی چیز کے وجود میں آنے کے تین طریقے ہیں یا کوئ چیز اتفاقی طور پر خود بخود وجود میں آگئ, یا اس نے خود کو خود ہی پیدا کیا, یا خالق نے اسے تخلیق کیا, اس آیت میں منکرین خدا کو دعوت دی گئ ہے کہ تم خود آپنے آپ پر غور کرو کہ تم مردہ تھے, اپنی پیدائش سے پہلے تم بے جان پانی تھے, تو کیا تم خود محض اتفاق سے پیدا ہوگۓ? یا تم نے خود اپنے آپ کو پیدا کیا ہے?
نہیں بلکہ فاحیاکم اس نے تمہیں پیدا کیا..تو جب تم خود پیدا نہیں ہوے, نہ تم نے خود کو پیدا کیا تو ساری کائنات کیسے خود پیدا ہوگئ?
اس موضوع کو مختلف پہلووں سے زیر بحث لایا جاسکتا ہے, لیکن ہم یہاں صرف کائنات کی تخلیق اور وسعت بیان کر کے عقلی دلیل قائم کرینگے, ملحدین کے نزدیک آج سے تقرہبا چودہ ارب سال پہلے ایک دھماکہ ہوا تھا جسے بگ بینگ کا نام دیا جاتا ہے, جب کہ سائنس کہتی ہے کہ زمین کی پیدائیش کو چار ارب(4000,000,000) سال ہو چکے ہیں, اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چودہ ارب سال پہلے ہونے والے دھماکے کے دس ارب سال کے بعد اپنی تمام تر خصوصیات کے ساتھ صرف زمین ہی کیوں اور کیسے وجود میں آئ?
جب کہ پیلا سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ جب کچھ بھی نہیں تھا تو وہ کیا چیز تھی جس سے دھماکہ ہوا?
ہمارے نزدیک یقینا یہ ایک من گھڑت مفروضہ ہے, اب ہم کائنات کی ترتیب اور وسعت بیان کر تے ہیں تاکہ واضح ہو جاے کہ اتنی وسیع کائنات خود بخود کیسے وجود میں آسکتی ہے جب کہ ایک چھوٹا سا گھر خود بخود  وجود میں نہیں آسکتا?
[24/09, 10:32 a.m.] واحد اللہ کی ذات باقی 😊😊😊: "اللہ خالق کل شئ"

(حصہ 2)

ہم جس سیارے پر رہتے ہیں اسے زمین کہا جاتا ہے,اب تک کی سائنسی تحقیق کے مطابق پوری کائنات میں صرف یہی ایک سیارہ ہے جہاں مکمل طور پر زندگی موجود ہے,اور زندگی کی تمام لوازمات موجود ہیں, اور کائنات میں موجود اربوں کھربوں سیاروں میں بلخصوص زمین کو  انسانی زندگی کے لیے تخلیق کیا گیا ہے, انسان کو سانس لینا ضروری ہے تو زمین پر ہوا مہیا کی جس میں اکیس فیصد آکسیجن ہوتا ہے جو سو فیصد انسان کے لیے مفید ہے, اگر ہوا میں آکسیجن چند فیصد بڑھا دیا جاے تو سانس لینا مشکل ہوجاے گا جب کہ جنگلوں میں آگ لگ جاے گی, پھر زمین کا مناسب درجہ حرارت رکھا, جو اوسطا 15 C ہوتا ہے, کم سے کم (منفی) -89 C اور زیادہ سے زیادہ 57 C ہوتا ہے جو کہ زندگی کے لیے مناسب ہے, جب کہ دیگر سیاروں پر شدید سردی یا شدید گرمی کی وجہ سے زندگی ممکن نہیں ہے,جسے ہم آگے قدرے تفصیل سے بیان کرینگے, پھر زمین پر انسان کے کھانے کے لیے ہزار ہا اقسام کے اناج مثلا گندم,چاول,دالیں,پھل, سبزیاں وغیرہ پیدا کی,جن کو مختلف رنگ اور ذائقے دیۓ, مختصر یہ کہ انسان کی زندگی سے وابسطہ ہر قسم کا سامان مہیا فرمایا, جب کہ دیگر سیاروں پر اب تک کی تحقیق کے مطابق زندگی ممکن نہیں ہے,اب اسے محض اتفاق کہدینا آنکھیں بند کرکے سورج کے انکار کے مترادف ہے, یہاں ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا کائنات میں انسان اکیلا ہے?
یا کوئ اور مخلوق بھی ہے جو دور کسی سیارے میں بستی ہو اور ہمیں ان کا علم نہ ہو, تو ہم کہتے ہیں کہ ایسا ممکن ہے, اور ہوسکتا ہے کہ کہیں دور کسی سیارے پر کوئ مخلوق بستی ہو, جنہیں عام طور پر خلائ مخلوق (Aliens) کہا جاتا ہے, قرآن میں صراحت کے ساتھ تو ان کا ذکر نہیں ہے لیکن ہم چند آیات کی روشنی میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ شرعی طور پر خلائ مخلوق کا وجود ممکن ہے, چنانچہ قرآن میں ہے:
"الحمد للہ رب عالمین ".

"تمام تعریفیں اللہ کے لیے جو عالمین کا پالنے والا ہے"
بے شک زمین پر موجود ہر جان دار کو رزق دینے والی ذات اللہ کی ہے لیکن فرمایا عالمین کا پالنے والا ہے, یعنی اگر سائنس دس یا بیس سالوں میں خلائ مخلوق کو تلاش کر لیتی ہے تو پھر بھی اسلام ہی کی حقانیت ظاہر ہوگی, کہ انھیں پالنے والی بھی وہی ذات ہے جو دنیا کو پال رہی ہے,ایک سوال یہ ہوتا ہے کہ کیا خلائ مخلوق شرعی احکام کے مکلف بھی ہے? تو اس کے جواب ہم کہتے ہیں کہ اللہ نے انسان اور جن کو عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے, تو اگر خلائ مخلوق انسان ہیں, یا جنات کی قسم سے ہیں تو مکلف ہوئیں, اور نہیں تو پھر ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں اللہ اعلم...
قرآن میں ہے:

" یخلق اللہ ما یشاء "
(النور,45)

اس آیت اور اس جیسی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ ہر چیز کا خالق ہے جو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے  ممکن ہے دور کسی سیارے میں کوئ مخلوق پیدا فرمائ ہو.
دوسری طرف سائنسی تحقیقاتی اداروں کا بھی یہی کہنا ہے کہ خلائ مخلوق کا وجود ممکن ہے, اور ہم اس کی کھوج میں لگے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ دس سے بیس سال کے اندر ہم خلائ مخلوق سے رابطہ قائم کر لینگے,جب کہ بعض سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ خلائ مخلوق کے پاس انسانوں سے زیادہ ٹیکنالوجی موجود ہے اور انھوں نے ہم پر نظریں رکھی ہوی ہیں,( ہمارے نزدیک یہ درست نہیں ہے, بلکہ محض انکی قیاس آرائیاں ہیں) بعض سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ خلائ مخلوق کے جس سیارے پر ہونے کے امکانات ہیں وہ زمین سے اتنا دور ہے کہ وہاں پہنچنا ممکن نہیں ہے, حاصل کلام یہ کہ شرعی اعتبار سے اور سائنسی تحقیقات کے مطابق خلائ مخلوق کا وجود ممکن ہے.
بہر حال خلائ مخلوق کا وجود بھی اللہ تعالی کے خالق و مالک ہونے کی دلیل ہوگا.


[24/09, 10:32 a.m.] واحد اللہ کی ذات باقی 😊😊😊: "اللہ خالق کل شئ"

(حصہ3)

ہمارا نظریہ یہ ہے کہ اللہ ہر چیز کا خالق ہے جیسا کہ قرآن میں ہے:
"کل اللہ خالق کل شئ"

"فرمادو اللہ ہر چیز کا خالق ہے".

چنانچہ انسان,چرند و پرند, نباتات,زمین آسمان,زمین سے باہر پوری کائنات میں اور کائنات سے آگے جو کچھ ہے ان تمام کا خالق اللہ تعالی ہے, جو لوگ اللہ کو خالق مانتے ہیں ان کے پاس ہر سوال کا جواب ہے لیکن جو لوگ تخلیق کے قائل نہیں ان کے پاس سواے من گھڑت کہانیوں کے کچھ نہیں ہے, وہ اس قدر وسیع کائنات کو کہہ دیتے ہیں کہ دھماکے سے بن گئ, جب کہ ہر انسان جانتا ہے کہ دھماکے کے نتائج بے ترتیب ہوتے ہیں, جب کہ کائنات پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ پوری کائنات بلخصوص اس نیلے سیارے کو خاص مقصد کے لیے بنایا گیا ہے, اور یہ ہوری کائنات کسی کے کنٹرول میں ہے, کہ جب ایک چھوٹی سی کمپنی کا نظام بغیر انتظامیہ کے نہیں چل سکتا تو اتنی وسیع کائنات کیوں کر خود رواں دواں ہوسکتی ہے, یہاں ہم کائنات کی وسعت بیان کرینگے تاکہ معلوم ہو کہ ایک رب ہے جو بڑی قدرت والا ہے,جسکے قبضے میں یہ ساری کائنات ہے, ہماری زمین کے ارد گرد سورج سمیت چند سیارے ہیں, جنھیں ہم شمسی نظام کہتے ہیں,اس نظام شمسی میں کل 9 سیارے ہیں, سائنسی اصطلاح میں سورج کو ستارہ کہا جاتا ہے, ستارے خود چمکتے ہیں, جب کے سیاروں میں اپنی روشنی نہیں ہوتی, سورج سے سب سے قریب سیارہ عطارد (mercury مرکری) ہے, مرکری کا درجہ حرارت سورج کے قریب ہونے کہ وجہ سے 227 C ہے, اس سے آگے سیارہ زہرہ (Venus) ہے, چونکہ وینس پر فضاء موجود ہے جو سورج کی گرمی اپنے اندر جزب کرلیتی ہے اس لیے اس کا درجہ حرارت مرکری سے زیادہ 260 C ہے, اس سے آگے ہماری زمین ہے جیسے نیلا سیارہ کہا جاتا ہے, چونکہ زمین کے تین حصوں میں پانی ہے اور ایک حصے پر دنیا آباد ہے تو پانی کی کثرت کی وجہ سے زمین نیلی نظر آتی ہے, زمین سے آگے سیارہ مریخ (Mars) ہے, سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ مارس پر پانی موجود ہونے کے امکانات ہیں, اور جہان پانی ہوگا وہاں زندگی ہوگی, سائنسی تحقیق کے مطابق تقریبا چوبیس سو (24,00) سیاروں پر پانی موجود ہونے کے امکانات ہیں, ایک سوال زہن میں آتا ہے کہ آخر سائنس دان کسی اور سیاروں پر زندگی کیوں تلاش کررہے ہیں? اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین اپنے اختتام کی طرف جارہی ہے اور تقریبا تین ارب (3,000,000,000) سال بعد مکمل طور پر زمین سے آکسیجن ختم ہوجاےگی, جس کے نتیجے میں دنیا ختم ہوجاے گی,تو ممکن ہے وہ کسی اور سیارے کی تلاش میں اس لیے ہوں کہ وہاں رہائش اختیار کی جاے, لیکن ہمارے زہن میں ایک بچکانہ سوال آتا ہے کہ اگر کسی سیارے پر پانی اور مناسب ماحول مل جاتا ہے تو کیا وہاں امریکا جیسا ملک آباد کیا جاسکتا ہے?
مارس سے آگلا سیارہ مشتری (Jupiter) ہے, سورج سے دوری کی وجہ سے اسکا درجہ حرارت منفی ایک سو پینتالیس (-145 C) ہے,اس سے آگے سیارہ سیٹرن ( Saturn)ہے, اس سیارے پر ہوا کی رفتار 1800 کلو میٹر فی گنٹہ ہے, جہاں کھڑا ہونا ممکن نہیں ہے, اس سے آگے یورینس اور نیپچیون سیارے ہیں, اور نظام شمسی کا آخر سیارہ پلوٹو ہے, جس کا درجہ حرارت منفی دو سو اڑتس (-238 C) ہے, گویا وہ ایک برف کا گولا ہے,


[24/09, 10:33 a.m.] واحد اللہ کی ذات باقی 😊😊😊: "اللہ خالق کل شئ"

(حصہ 4)

یہ سیارے سورج کہ گرد گردش کررہے ہیں, زمین سورج کے گرد تیس کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے گردش کرتی ہے,اور ایک چکر 365 دن میں مکمل کرتی ہے,  ان سیارں میں آپس میں لاکھوں میل کا فاصلہ ہے, چنانچہ زمین سے سورج کا فاصلہ چودہ کروڑ,پچانوے لاکھ, اٹھانوے ہزار کلو میٹر, (14,95,98000) ہے اور حیرت انگیز بات یہ کہ سورج سے نکلنے والی روشنی جس کی رفتار تین لاکھ ( 3,00,000) کلو میٹر فی سیکنڈ ہے, صرف پانچ منٹس آٹھ سیکنڈ میں زمین پر پہنچ جاتی ہے, سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسے کون چلاتا ہے? کیا یہ خود چلتی ہے? جب کہ زمین پر رینگنے والی ایک سائکل خود نہیں چل سکتی.یہ ہے ہمارا شمس نظام جو کائنات میں وہی حیثیت رکھتا ہے جو سمندر کے آگے ایک قطرے کی ہے, اسی قسم کے سیاروں اور ستاروں سے مل کر ایک کہکشاں (Galaxy)  بنتی ہے, جس کہکشاں میں ہماری زمین موجود ہے اسے ملکی وے کہا جاتا ہے,یعنی دودھیا راستہ, ہماری کہکشاں کتنی بڑی ہے اسکا اندازہ یوں لگائیں کہ ہماری ملکی وے میں سترہ ارب (17,000,000,000) سیارے ہیں,اور ایک کھرب (1,000,000,000) ستارے ہیں, یہ اللہ تعالی کی کامل قدرت ہے کہ یہ تمام سیارے اور ستارے آپس میں ٹکراتے نہیں ہیں, ادھر سائنس دانوں کا بھی یہی کہنا ہے کہ سینکڑوں سال تک سیاروں کے آپس میں ٹکرانے کا کوئ امکان نہیں ہے, کیا یہ محض اتفاق ہے?
ہمارا سورج بھی ایک ستارہ ہے, جب کہ تمام ستارے سورج ہیں,جو کہ دوری کی وجہ سے اتنے چھوٹے نظر آتے ہیں, اور ان کے اپنے شمسی نظام بھی ہیں,جس طرح زمین پر میل سے فاصلے ناپے جاتے ہیں خلاء میں نوری سال سے فاصلوں کا تعین ہوتا ہے, روشنی جو کہ (300,000) کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے,جب ایک سال تک سفر کرتی رہے تو وہ ایک نوری سال کہلاتا ہے، اور ہماری کہکشاں کی چوڑائ ایک لاکھ( 100,000) نوری سال ہے, مزید یہ کہ کائنات میں صرف ایک کہکشاں نہیں ہے, ہماری کہکشاں ملکی وے کے برابر میں ایک اور کہکشاں ہے جس کا نام اینڈرومیڈا ہے, اس کی چوڑائ دو لاکھ (200,000) نوری سال ہے,کہکشاوں کا یہ سلسلہ جاری ہے چنانچہ سینتالیس ہزار (47,000) کہکشائیں ملکر ایک جھرمٹ (Cluster) بناتی ہیں, ہماری کہکشاں جس کلسٹر میں ہے اسے ورگو کلسٹر کہا جاتا ہے, پھر سو (100) کلسٹر مل کر ایک سپر کلسٹر بناتے ہیں, اور کائنات میں اب تک کی تحقیق کے مطابق ایک کروڑ (1000,0000) سپر کلسٹر ہیں, یہ ہے کائنات کا وہ حصہ جہاں تک سائنس کی رسائ ہوئ, سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ چودہ ارب نوری سال کے فاصلے تک ہماری تحقیق جاری ہے, پھر بھی ہم کہتے ہیں کہ اگر سائنس کائنات کو پار کر کے آسمان تک پہنچ بھی گئ تو پھر بھی قرآن کی ہی حقانیت ثابت ہوگی کہ اللہ تعالی فرماتا ہے:

"ثم استوی الی السماء فسوھن سبع سموات"

" پھر آسمان کی طرف قصد فرمایا تو سات آسمان بنا دیے".

خلاصہ یہ کہ یہ تمام نشانیاں, صرف اسی کا پتہ دیتی ہیں اور بس...


No comments:

Post a Comment