وہ جدھر بھی گیا صرف قابض نہ ہوا بلکہ ایک علاقہ پر قبضہ کرنے کے بعد اس سے اگلے علاقہ کو کمزور کیا اور پھر اس پر قابض ہو گیا.
روس کے جامد سمندر کہ مقابلہ میں بحر ھند کے گرم پانی روس کی رال ٹپکاتے تھے۔ پورے سنٹرل ایشیاء کا مال اسی سمندر کے زریعے عالمی منڈی تک جاتا ہے روس کی نظر اس گرم پانی پر تھی۔ اور پاکستان پر حملے کے بغیر یہ ممکن نہیں تھا روس کےلیے۔
روس اور بھارت کے تعلقات 1947 سے لے کر 2012 تک بالکل اسی طرح رہےہیں جیسے پاکستان اور چائنہ کے رہے ہیں۔ اگر روس افغانستان میں کامیاب ہو جاتا تو پاکستان دو اطراف سے دشمنوں میں گھر جاتا۔ ایک طرف بھارت دوسری طرف افغانستان۔ ایسے حالات میں جب روس کی نظریں گرم سمندر پر ہوں اور ھندو بنیا اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھ رہا ہو پھر یہ سوال کرنا کہ پاکستان نے افغان روس جہاد میں حصہ کیوں لیا بیوقوفی نہیں تو کیا ہے؟
یہاں یہ کہنا کہ روس ایسا نہ کرتا اور پاکستان پر حملہ نہ کرتا بالکل فضول ہے۔
ہم روس کی پچھلی دیڑھ سو سالہ استعماریت پر مبنی تاریخ کو نظر انداز کر کے اگر یہ کہیں کہ روس نیک اور شریف ارادے لے کر افغانستان آیا تھا تو یہ احمقوں کی جنت میں سب سے بلند درجے پر فائز ہونے کے مترادف ہے۔ بقول میجر عامر روس اپنی ضرورت سے تین گنا زیادہ فوج افغانستان میں لے کر میٹر ریڈنگ کےلیے نہیں آیا تھا۔
ہاں سرخے روس کے ٹوٹنے کا ماتم آج تک کر رہےہیں۔ ان کو وہاں وہاں تکلیف ہوتی ہے روس کے ٹوٹنے سے کہ بیان سے باہر ہے۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ روس کے ٹوٹنے سے امریکہ بے لگام ہو گیا۔ تو کیا کریں بے لگام ہو گیا تو؟ ہم اپنا ملک داؤ پر لگا دیتے اس وجہ سے کہ روس اور امریکہ کا مقابلہ چلتا رہے؟ کیسی بیوقفانہ سی منطق ہے۔
#PakSoldier HAFEEZ
No comments:
Post a Comment