پاکستان روس اور چائنہ اتحادسے دنیا کے طاقت ور ممالک پاکستان کو ایک قریب ترین طاقتور مدمقابل کے طور پر جاننے لگتے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں بھارت کی غیرمعمولی عسکری تیاریوں اور اسرائیل و امریکا سے عسکری معاہدوں کی وجہ سے خطے کے تمام ممالک اپنے آپ کو ایک خطرے میں محسوس کرتے ہیں، لیکن پاکستان کی دفاعی اور عسکری صلاحیت کا اعتراف جب عالمی سطح پر کیا جاتا ہے تو بھارت کی دھاک کمزور پڑتی دکھائی دیتی ہے۔
گزشتہ 30 سالوں میں پاکستان نے دو بڑی عالمی طاقتوں امریکا اور سوویت یونین کی مہم جوئیوں کو بھی بڑی مہارت کے ساتھ ہینڈل کیا ۔ روس کی شدید مجبوری تھی کہ وہ گوادر کے ذریعہ بین الاقوامی سمندروں تک پہنچے اور پاکستان نے روس سے دوستی کا ہاتھ بڑھاتو روس نے بھی قبول کرلیا ۔ کیونکہ روس کو بھی رسائی چاہیے اور پاکستان کو گوادر پورٹ کامیاب بنانی ہے اور ملکی معیشت بھی بہتر بنانی ہے ۔
امریکا اور اس کے اتحادیوں کا ظاہری بہانہ تو دہشت گردی کا خاتمہ اور القاعدہ کا مسئلہ تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکا اس خطے میں القاعدہ کو ایک جواز کے طور پر ہدف میں رکھ کر آیا۔ اس مہم جوئی کا اصل مقصد بھی پاکستان کا ساحل اور گوادر پورٹ تھا جس کا ٹھیکہ امریکا کی شدید مخالفت اور دھمکیوں کے باوجود پاکستان نے چائنا کو دے دیا تھا۔ امریکا یہ منصوبہ کسی طرح چلنے نہیں دینا چاہتا تھا اور اب بھی اس پر راضی نہیں ہے، امریکا چاہتا تھا کہ ایشیا کا یہ اہم ترین دروازہ اس کے زیر تسلط ہو ،تاکہ اس خطے میں امریکی بالادستی اور تجارتی مفادات کو سہارا مل سکے۔ پاکستان نے امریکی ناراضگی کو نظرانداز کرکے چائنا کو ٹھیکہ دے دیا تو امریکا نے اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے خطے میں مداخلت کرنے کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ضروری قرار دے دیا اور اپنے اتحادیوں سمیت افغانستان میں آدھمکا۔ اس کی آمد کے بعد پاکستان میں شدید بدامنی شروع ہوئی۔ مسلح تحریکیں کھڑی ہوگئیں۔ مزاحمت، بغاوت اور خانہ جنگی کی سی صورت حال پیدا ہوگئی۔ اس سب کے پیچھے امریکا بذریعہ بھارت تھا، یہاں تک کہ پاکستان کو ایک ناکام ریاست کے طور پر دیکھا جانے لگا، لیکن قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔ دس بارہ سال کی مہم جوئی کے بعد امریکا اور اس کے اتحادیوں کو یہ اعتراف کرنا پڑا کہ وہ پاک چائنا تجارتی معاہدوں کی راہ میں دیر تک نہیں ٹھہرسکتے، چنانچہ یہ بھوکے بھیڑیے ایک ایک کرکے میدان چھوڑتے گئے اور امریکی فضائیہ کے چند اڈّوں کے سوا سب نکل گئے۔ امریکا نے افغانستان میں بیٹھ کر بھارت کی حمایت سے پاکستان کو کمزور کرنے اور گوادر ساحل کے معاہدوں سے واپسی پر مجبور کرنے کے لیے جتنے بھی پتے کھیلے وہ سب بری طرح پٹ گئے اور امریکا و بھارت دونوں کو افغانستان میں کی گئی بھاری سرمایہ کاری مہنگی پڑگئی۔
پاکستان کے اپنے داخلی مسائل، نااہل حکمران اور عیاش اور بدعنوان بالائی طبقہ ہی دراصل اس ملک کا بڑا دشمن ہے اور اسی سے اس ملک کو نقصان پہنچا ہے۔ رہی بین الاقوامی طاقتیں بھارت یا کوئی بھی مہم جو ملک تو پاکستان کے پاس اس کو منہ توڑ جواب دینے کی بھرپور صلاحیت ہے۔ اقتصادی حوالے سے بھی پاکستان کو اپنے ہی اندر سے بدحالی کا سامنا کرنا پڑا ہے، جب سے زرداری حکومت ختم ہوئی ہے اور چائنا کو یہ یقین ہوچکا ہے کہ اب پاکستان چائنا سے کیے گئے معاہدوں پر عملدرآمد کرنے کی پوزیشن میں آچکا ہے تو چائنا نے بھی اپنے خزانوں کے منہ کھول دیے ہیں۔ پاک چائنا اقتصادی راہداری کا منصوبہ چائنا کو تو یقینا غیرمعمولی تقویت دینے کے باعث ہے۔ پاکستان بھی اس منصوبے سے معاشی حوالے سے اتنا آگے نکل جائے گا کہ دنیا حیران ہوجائے گی۔ پاک چائنا دوستی ایک ایسی زنجیر ہے جو ایشیا کو بحر عرب سے لے کر بحرالکاہل تک بیچ میں لکیر کی طرح تقسیم کرتی ہے۔ اس راہداری کے بننے کے بعد ایشیا کا جنوب اس کے شمال سے رابطہ کرنے میں اسی کا محتاج ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کو اس منصوبے پر بہت ہی دُکھ ہے، وہ امریکا کے ساتھ مل کر اس منصوبے کو ہر حال میں ناکام بنانا چاہتا ہے، لیکن اس کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس معاہدے کا ایک فریق چائنا ہے، ایک پاکستان۔ دونوں ممالک کمزور نہیں، بلکہ بڑی عالمی طاقتوں کی فہرست میں شامل ہیں۔ا گر بھارت زیادہ آگے بڑھنے کی کوشش کرے گا تو اس کی عزت خاک میں مل جائے گی۔
اور اب تو روس بھی پاکستان کی حمایت میں کھل کر سامنے آ گیا ہے اور ترکی نے بھی خواہش ظاہر کی ہے کہ وہ سی پیک منصوبے میں شمولیت کرنا چاہتا ہے ۔ چین اور روس کے تعلقات کے سلسلے میں بنیادی بات یہ ہے کہ وہ طویل عرصے تک اختلافات کا شکار رہے ہیں، لیکن اب دونوں ملک اپنے پرانے قریبی تعلقات کی جانب لوٹ رہے ہیںجب سوویت یونین متحدہ ملک تھا اور عالمی امور میں دونوں ممالک کاموقف یکساں تھا۔ روس اپنے مشکل اقتصادی دور سے بھی گزر چکا ہے اور اب اس کی معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے۔ روس عالمی امور پر اپنا کردار دوبارہ ادا کرنے پر توجہ مرکوز کر رہا ہے
سوویت یونین کی شکست و ریخت اور روس کی سرحدیں سُکڑ جانے کے بعد ایک طویل وقفہ ایسا ضرور گزرا ہے، جس میں دُنیا یک قطبی ہو گئی تھی اور روس اپنی اقتصادی مشکلات میں الجھ کر اپنے عالمی کردار سے بڑی حد تک لاتعلق ہو گیا تھا۔ اب اس سلسلے میں دوبارہ متحرک ہوا ہے تو لگتا ہے بہت جلد عالمی امور میں امریکی من مانیوں کا سلسلہ بڑی حد تک کم ہو جائے گا اور امریکہ کو فیصلے کرتے وقت روس کے موڈ کا بھی پاس و لحاظ رکھنا پڑے گا۔ عالمی امور میں طاقت کا خلا کسی ایک مُلک کے حق میں زیادہ عرصے تک رہنے کی روایت اور تاریخ نہیں ہے، طاقت کے مراکز ہمیشہ بدلتے رہے ہیں اور آئندہ بھی بدلتے رہیں گے۔
چین اِس وقت عملاً ’’اقتصادی سپر پاور‘‘ کے منصب پر فائز ہے اور بڑی تیزی کے ساتھ اپنے عالمی کردار میں اضافہ کرتا چلا جا رہا ہے۔ امریکہ کو جنوبی چین کے جس سمندر میں چینی کردار پر اعتراض ہے اور جس کی بنیاد پر اس نے بھارت کے ساتھ دفاعی عاہدہ کیا ہے اس کا پس منظر یہ ہے کہ بحیرہ جنوبی چین کو بیجنگ مکمل طور پر اپنا حصہ کہتا ہے تاہم ہیگ کے عالمی ثالثی پینل نے ایک فیصلہ جاری کیا تھا، جس میں چین کے اس دعوے کی نفی کی گئی تھی۔ چین نے اس فیصلے کو مسترد کر دیا تھا، روس نے بھی چین کے موقف کی تائید و حمایت کی تھی۔ دنیا نے پاکستان کو ایک ذمہ دار ایٹمی ملک کے طور پر تسلیم کرلیا ہے اور پاکستان کی ایٹمی ہتھیاروں کی سیکیورٹی پر اطمینان کا اظہار کیا ہے لیکن پاکستان کو این ایس جی سے باہر ر کھنا غیر حقیقی ہے امید ہے کہ وہ جلد پاکستان کی یہ بات بھی تسلیم کرلینگے۔ جوہری مسائل کے حل کیلئے عالمی تعاون بنیادی ضرورت ہے اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے کسی کو کوئی خطرہ نہیں ہونا چاہئے، یہ تاثر زائل کرنے کی ضرورت ہے کہ ایٹمی سپلائی گروپ نئے قوانین اور قواعد لاگو کر رہا ہے،پاکستان کو انرجی سیکٹر میں ضروریات پوری کرنے کیلئے جوہری مواد کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں پاکستان کو اقوام عالم کی ضرورت ہے۔ اس وقت بین الاقوامی قوتیں ایٹمی پاکستان کو نقصانات سے دوچار کرنے کی خوفناک سازشیں کر رہی ہیں۔ منظم منصوبہ بندی کے تحت دہشت گردی اور فرقہ واریت کو پروان چڑھایاجارہا ہے۔ ہم سب کو متحد ہو کر ان سازشوں کو ناکام بنانا اور قوم میں اتحادویکجہتی کا جذبہ پیداکرنے کی ضرورت ہے۔
امریکہ چین کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ اور سرگرمیوں پر تشویش کا اظہار کر چکا ہے۔عالمی پینل کا فیصلہ سامنے آنے کے باوجود چین نے کہا تھا کہ وہ بحیرہ جنوبی چین میں مصنوعی جزیروں کی تعمیر جاری رکھے گا اور اس خطے کی مسلسل فضائی نگرانی بھی کرتا رہے گا۔ بحیرہ جنوبی چین انتہائی سٹرٹیجک اہمیت کا علاقہ ہے اور ہر سال تقریباً5000ارب ڈالر کی تجارت اِسی راستے سے ہوتی ہے،
امریکہ اور بھارت کے درمیان دفاعی معاہدہ بھی ہیں اس لیے امریکہ بھارت اور افغانستان کی سرزمین استعمال کر کے پاکستان اور اقتصادی راہداری کو نقصان پہنچانے کی کوششیں بھی کافی کر رہا ہے مگر ہماری غیور اور بہادر فوج کا اسے اندازہ نہیں ہے ۔ ہماری بہادر افواج دشمنوں کی ہر چال کو ناکام بناتے آئے ہیں اور رہیں گے اور پوری قوم ملکی خوشحالی اور دفاع کے لیے افواج کے ساتھ کھڑی ہے ۔
امریکہ کے ساتھ بھی بھارت نے پہلی فرصت میں دفاعی معاہدہ کر لیا ہے، جس کے تحت دونوں ملک ایک دوسرے کے ہوائی اڈے استعمال کر سکیں گے۔ بظاہر امریکہ کے پیش نظر چین کا گھیراؤ ہے اور اگر بحیرہ جنوبی چین سے کوئی تنازعہ اُٹھتا ہے تو بھارتی اڈے امریکہ کے لئے مفید ثابت ہو سکتے ہیں تاہم چین کی جنگی صلاحیتوں میں جس تیز رفتاری سے اضافہ ہو رہا ہے اس کے پیش نظر لگتا ہے کہ بھارت کی مدد سے چین کے مقابلے میں کھڑی کی جانے والی دیوار ریت کا گھروندہ ہی ثابت ہوگی،
پاکستان اور روس کی دوستی تو خطے پر ایک نیا سورج اُبھرنے والی بات ہے کہ یہ دونوں ممالک دوستی کی کوئی طویل تاریخ نہیں رکھتے، بلکہ روس نے ہمیشہ بھارت کے ساتھ تعلقات کو ترجیح دی اور پاکستان کے ساتھ ایک فاصلہ رکھا، لیکن چند برسوں سے دونوں ممالک ماضی کو تاریخ کے سپرد کر کے مثبت سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔روس نے پاکستان کو اسلحے کی فروخت پر عائد پابندی ختم کر دی ہے اور پاکستان ،روسی جنگی طیارے اور دوسرا سازو سامان خریدنے میں دلچسپی کا اظہار کر رہا ہے دونوں ممالک کے تعلقات میں اضافہ خطے کے مفاد ہی میں ہے ۔ باہمی تعلقات کا یہ وسیع ہوتا ہوا اُفق بہت جلد کئی دوسرے ممالک تک وسیع ہو جائے گا۔ عالمی سیاست میں دوام صرف تغیر کو ہے ۔ ملکوں کی دوستیاں اور دشمنیاں قومی مفادات کے تابع ہوتی ہیں ۔۔ مفادات بدلے حالات بدلے ۔ بھارت امریکہ سے پینگیں بڑھا رہا ہے تو پاکستان امریکہ اور بھارت کے علاوہ دوسرے تمام ممالک جو امن پسند ہیں انھیں ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کررہا ہے اور پرامن ممالک سے دوستیاں بڑھا کر دنیا کو امن کی راہ میں لانے کی کوششیں کر رہا ہے ۔
پاکستان کو دنیا میں تنہا کرنا اب بھارت کی علانیہ پالیسی ہے ۔ روس کی افواج کو بھارت نے بہت سمجھایا اور پاکستان کے ساتھ مشقوں وغیرہ میں حصہ لینے سے روکنے کی بھارت نے پوری کوشش کی مگر روس نے دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے بھارت کی ایک نا سنی اس وقت بھارت کا جنگی جنون سر چڑھ کر بول رہا تھا اوربھارت کسی بھی حد تک جاسکتا تھا مگرروس نے کہا اب امن ہو یا جنگ ہم ساتھ ہیں اور اس نے اپنی فوجیں مشقوں کے لیے بھیج دیں جس سے بھارت کی نیندیں حرام ہوگئی اور ابھی تک بھارت کو روس اور چائنہ سے پاکستانی کی دوستی برداشت نہیں ہو رہی ۔
ویسے تاریخ کے حساب سے پاکستان اور روس تعلقات میں کافی عرصہ کشیدگی رہی ۔۔ مگر اب دوستی بھی اتنی ہی گہری ہوتی جارہی ہے ۔ بھارت آج امریکہ کا کلمہ پڑھتے ہوئے اس کا فطری دفاعی اتحادی ہونے کا داعی ہے اور امریکہ نے بھی اس کو اپنے مخلص اور قابل اعتبار دوستوں کی صف میں شامل کرلیا ہے جبکہ بغض معاویہ پر مبنی اس اتحاد کا چین اور پاکستان دونوں ٹارگٹ ہیں۔ بھارت کی پاکستان کے ساتھ شروع دن سے مخاصمت ہے اور وہ پاکستان کو خدانخواستہ صفحہ ہستی سے مٹانے کے ایجنڈا کی تکمیل چاہتا ہے
پاک چین دوستی کے تناظر میں وہ چین کو اپنے ان عزائم کی راہ میں رکاوٹ سمجھتا ہے چنانچہ اپنی ایٹمی دفاعی صلاحیتوں کے بل بوتے پر وہ چین اور پاکستان دونوں کو ضرب لگانے کی مذموم منصوبہ بندی رکھتا ہے ۔ کچھ ایسا ہی معاملہ امریکہ کا چین کے ساتھ ہے کیونکہ پاکستان کے تعاون سے سرد جنگ میں سوویت یونین کو شکست دینے کے بعد امریکہ اپنے تئیں دنیا کی واحد سپرپاور بن بیٹھا اور اسی تناظر میں وہ اس خطہ میں چین پر غلبہ حاصل کرنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے جو سوویت یونین کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے بعد فطری طور پر دنیا کی دوسری سپرپاور بن چکا ہے۔ امریکہ کو چین پر غلبہ حاصل کرنے کیلئے اس خطہ میں کسی ملک کے تعاون کی ضرورت تھی اور چین کے ساتھ پائیدار دوستی کے ناطے پاکستان امریکہ کی لابی میں شامل ہونے کے باوجود اس معاملہ میں امریکہ کا معاون نہیں ہو سکتا تھا چنانچہ بھارت پر اسکی نگاہیں جمیں جو سردجنگ کے خاتمہ تک اسکے دشمنوں میں شمار ہوتا تھا۔
اسی طرح بھارت کو پاکستان چین دوستی کے ناطے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل میں مشکلات پیش آرہی تھیں چنانچہ اسے بھی چین کیخلاف امریکی عزائم کو بھانپ کر اپنا وزن امریکہ کے پلڑے میں ڈالنے کا موقع مل گیا اور اس طرح ماضی کے ایک دوسرے کے دشمن اب ایک دوسرے کے ”فطری” اتحادی بن گئے ہیں جن کا مشترکہ ایجنڈا پاکستان چین دوستی کے حصار کو توڑنے کا ہے جبکہ پاکستان اور چین نے اقتصادی راہداری اور ایٹمی ری ایکٹرز میں باہمی تعاون کے ذریعے دوستی کے حصار کو مستحکم کرکے اسے باہمی دفاعی حصار میں تبدیل کرلیا ہے جس پر امریکہ اور بھارت دونوں مضطرب ہیں ۔
اوبامہ اور مودی نے پاک چین دوستی کا توڑ کرنے کیلئے ہی حکمت عملی سوچی تہی جس کیلئے امریکہ کو غیرمعمولی اقدامات کے تحت بھارت کے ساتھ ایک دوسرے کے فوجی نظام تک کو بروئے کار لانے کے معاہدے کا بھی سوچنا پڑا۔
اس سے امریکہ کو یہ فائدہ ہوگا کہ کل کو چین کے ساتھ جنگ کی نوبت آنے کی صورت میں وہ بھارت کے ایئربیسز چین پر فضائی حملے کیلئے استعمال کر سکے گا اور اسکی فوجی معاونت بھی حاصل کر سکے گا جبکہ بھارت کو امریکہ کے ساتھ فوجی اتحاد کی بدولت پاکستان کی سالمیت پر وار کرنے کی بھی سہولت حاصل ہوگی اور وہ چین کے علاقے اروناچل پردیش تک رسائی کے اپنے دیرینہ خواب کو بھی شرمندہ تعبیر کرنے کی پوزیشن میں آجائیگا اور دونوں ممالک کے یہی مفادات باہمی انہیں فطری دفاعی اتحادی بنانے میں معاون ہوئے ہیں۔
چین کو اس صورتحال کا پہلے ہی بخوبی ادراک ہے چنانچہ وہ پاک چین دوستی میں کسی قسم کی دراڑ پیدا نہیں ہونے دینا چاہتا اور وہ سی پیک کو پاکستان سے بھی زیادہ سنجیدگی کے ساتھ کامیابی سے ہمکنار ہوتا دیکھنا چاہتا ہے۔ اسی بنیاد پر چین نے سی پیک کی مخالفت سے متعلق بھارتی عزائم اور منصوبوں کے توڑ کی بھی حکمت عملی طے کی ہوئی ہے جس کے تحت مودی کے دورہ بیجنگ کے دوران چینی صدر انہیں باور کراچکے ہیں کہ بھارت کا اقتصادی راہداری منصوبے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ صرف یہی نہیں چین پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانے والے ہر بھارتی منصوبے کی مخالفت کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عائد کرانے کی بھارتی سازشیں چین نے اسکی قرارداد ویٹو کرکے ناکام بنائیں جبکہ اب وہ اسی تناظر میں بھارت کی سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت اور اسے نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شامل کرانے کی امریکی کوششوں کی بھی ڈٹ کر مخالفت کررہا ہے کیونکہ مضبوط پاکستان چین کی ضرورت ہے جس کیخلاف آج امریکہ بھارت گٹھ جوڑ ہوا ہے تو چین یہ گٹھ جوڑ اپنے خلاف بھی سمجھتا ہے۔
پاک کا چین اور روس کے ساتھ اقتصادی’ دفاعی اور تجارتی تعلقات مزید مستحکم کرکے اس خطے میں طاقت کا ایک نیا منبع قائم ہونے جا رہا ہے ۔ا س سے جہاں امریکہ بھارت گٹھ جوڑ سے اس خطے میں بگڑنے والا طاقت کا توازن درست ہوگا وہیں بھارت کے علاقے کی تھانیداری والے عزائم اور امریکہ کے واحد سپرپاور بننے کے عزائم پر اوس پڑیگی۔ چنانچہ آج امریکہ اور بھارت کے معاملہ میں مصلحت و مفاہمت کے بجائے دوٹوک پالیسیاں اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔
امریکہ نے چونکہ اب اپنا سارا وزن بھارت کے پلڑے میں ڈال دیا ہے تو اب اس کا فرنٹ لائن اتحادی بنے رہنے کا کوئی جواز نہیں رہا اس لئے اب اس معاملہ میں بھی قومی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرلی جائے۔ ہم اپنی بہتر سفارتکاری سے علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کیلئے خطرہ بننے والے بھارتی جنونی عزائم پر بھی دنیا کو اپنے حق میں قائل کرسکتے ہیں جس کیلئے پاکستان کی نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شمولیت کے معاملہ میں دفتر خارجہ کی جانب سے غیرملکی سفیروں کو بریفنگ دینے کا درست قدم اٹھایا گیا ہے۔ اسی طرح ہم اپنی سفارتکاری کو بروئے کار لا کر امریکی کانگرس کے 18′ارکان کےاستقاضےکوبھی اپنے حق میں استعمال کر سکتے ہیں کہ مودی کے ساتھ بھارت میں مذہبی عدم برداشت کا معاملہ بھی اٹھایا جائے۔ اس حوالے سے بھارت کا مذہبی انتہاء پسندی والا جنونی چہرہ دنیا کے سامنے آئیگا تو اس سے بھارت کے ساتھ گٹھ جوڑ پر واشنگٹن انتظامیہ پر بھی عالمی دباؤ بڑھے گا۔ بہتر یہی ہے کہ چین’ پاکستان اور روس مل کر اس خطے میں امریکہ بھارت گٹھ جوڑ کا توڑ کریں جس کیلئے ان تینوں ممالک میں ہر فیلڈ میں باہمی تعاون شرطِ اول ہے۔
روس جو کشمیر کے معاملے میں بھارت کی طرف تھا آج وہ ہی اپنے مفادات یا پاکستان دوستی کی وجہ ہے کشمیر مسئلے پر پاکستان حمایت کر رہا ہے ۔۔ وہ مغربی ممالک / امریکی تجارت کی قیمت پر مسئلہ کشمیر کا حل نہیں چاہتے جبکہ روس اورچائنہ مسئلہ کشمیر کا حل چاہتے ہیں ۔۔ اگر پاکستان چین کی طرح روس کے ساتھ بھی قریبی دوستانہ تعلقات پر توجہ دے تو پاکستان کو امریکہ سے پہنچنے والے زخموں کا مداوا ممکن ہو سکتا ہے۔پاکستان نے اپنے باقی اکثر اہم معاملات کی طرح مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھی امریکہ پر تکیہ کرنے کی پالیسی رکھی اور اب بھی پاکستان کا امریکہ سے یہی مطالبہ اور توقع ہے کہ امریکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کا مسئلہ حل کرائے۔لیکن امریکہ ہر بار بھارت کی حمایت میں ا پنی اس پالیسی کا اعادہ کرتا ہے کہ پاکستان اور بھارت آپس میں مزاکرات سے کشمیر کا مسئلہ حل کریں۔اس حوالے سے امریکہ اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتا ہے ۔
پاکستان نے روس سے جنگی طیارے خریدنے کی بات کی تو امریکہ نے پاکستان کو روسی جنگی طیارے حاصل کرنے سے روکنے کے لئے ایف16طیارے دینے کا جھانسہ دیا اور عین وقت پر اس سے انکار کر دیا۔ پاکستان روس کے ساتھ دوستی اور باہمی مفاد پر مبنی ہر شعبے میں قریبی تعلقات استوار کرے اور ان تعلقات کے قیام میں تیزی لانے کے لئے چین کی مدد ومعاونت حاصل کی جائے۔ اس وقت روس اور جاپان کے درمیان بھی فوجی اور معاشی تعاون میں قربت بڑھ رہی ہے۔ جبکہ یورپ میں گیس سپلائی کا انحصار روسی گیس پر ہے جسکی سپلائی اگر روک لی جائے یا قیمت بڑھا دی جائے تو یورپ کے پاس روس کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ پاکستان میں حکومت اور اپوزیشن پارٹیوں کو سمجھنا ہوگا کہ یہ وہ وقت ہے جب پاکستان کو مضبوط ہونا چاہیے ۔۔ اور افواج پاکستان کے ساتھ پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانا ہوگا ۔
********
#PakSoldier HAFEEZ
No comments:
Post a Comment