دجال اپنے نظام (نیو ورلڈ آرڈر) تسلیم کرنے والوں کو نوازے گا(ڈالر دیکر ۔ گرین کارڈ کے زریئے امریکا یورپ کی نیشنلٹی۔ قانون کی گرفت سے آزادی دیکر ) انکی دنیا جنت بنا دیگا -
اور اس ظالم سرمایا دارنہ نظام نیو ورلڈ آرڈر کو نا مان نے والے باغیوں کو دجال
اپنی آگ میں جلائے گا (بم برسا کر ۔ ڈرون طیاروں سے ٹارگٹ کرکے )
دجال کی معاون قوتوں اور اس کے پاس موجود شیطانی طاقتوں سے آگاہی ہمیں درج ذیل احادیث سے ملتی ہے۔:
حدیث شریف میں آتا ہے:
دجال کے ساتھ اصفہان کے ستر ہزار یہودی ہوں گے جو ایرانی چادریں اوڑھے ہوئے ہوں گے(صحیح المسلم :7034،روایت انس بن مالک رضی اللہ عنہ)
اس کے پاس آگ اور پانی ہوں گے۔(جو)آگ (نظر آئے گی وہ) ٹھنڈا پانی ہو گا اور (جو) پانی (نظر آئے گا وہ) آگ (ہوگی)۔( صہیح بخاری : روایت رضی اللہ عنہ)۔
اس دجال کے پاس روٹیوں کا پہاڑ اور پانی کا دریا ہو گا (مطلب یہ کہ اس کے پاس پانی اور غذا وافر مقدار میں ہوں گے) ۔ اللہ کے پیارے نبیُ نے فرمایا ان باتوں کے لیے نہایت حقیر ہے لیکن اللہ اسے اس کی اجازت دےگا (تاکہ لوگوں کو آزمایا جا سکے کہ اللہ پر یقین رکھتے ہیں یا دجال پر)۔ (صحیح البخاری : جلد 9، صفہ 244، روایت المغیرہ ؓ )
وہ دجال ایک گدھے پر سوار ہوگا ۔ اس گدھے کے کانوں کے درمیان چالیس ہاتھوں کا فاصلہ ہوگا( مسند احمد: جلد ،صفہ 367۔368)
اللہ تعالی اس کے ساتھ شیاطین کو بھیجے گا جو لوگوں کے ساتھ باتیں کریں گے۔ (مسند احمد : جلد 3،367۔368، اقتباس:20۔51)
ان احادیث کی روشنی میں دجال کی قوتوں کو ایک ایک کر کے دیکھتے ہیں۔
اس کے قبضہ تمام زندگی بخش وسائل مثلا پانی ، آگ اور غذا پر ہوگا
اس کے پاس بے تحاشہ دولت اور زمین کے خزانے ہوں گے۔
اس کی دسترس تمام قدرتی وسائل پر ہوں گی۔ مثلا بارش ، فصلیں،قحط اور خشک سالی وغیرہ۔
دولت اور خزانے؎
یہ تو بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ دینا کی معیشت کو دو ادارے ’ورلڈ بینک‘ اور ’ آئی ایم ایف ‘ چلا رہے ہیں ۔ یہ بھی لوگ جانتے ہیں کہ ان کو عالمی معیشت کی نبض کہا جاتا ہے۔ اور دنیا کی معیشت کا انحصار اب دونوں اداروں پر مانا جاتا ہے۔یہ بھی سب جانتے ہیں کہ یہ ادارے کس طرح مقروض ملکوں پر دبائو ڈال کر وسائل پر تصرف اور مقاصد پر اپنی اجارہ داری قائم کرتے ہیں۔ لیکن یہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ان دو اداروں کو کون چلاتا ہے۔؟ ان کو انڑنیشنل بینکرز کا گروپ چلاتا ہے۔ اور اس گروپ کو فری میسن کے ’ بگ برادرز‘ چلاتے ہیں جو دجال کی عالمی اقتدار کی راہ ہموار کرنے کے لیے دینا کی معیشت کو قابو میں رکھنے کے لیے سرگرم ہیں۔2009 میں ایک کتاب چپھی تھی ’ کارپوریشنز کی حکومت‘ یہ ایک امریکی جوڑے نے لکھی تھی جو بیرون امریکا ملٹی نیشنل کمپنیوں کی انسانیت سوز کاروائیوں کو قریب سے دیکھتے رہے کہ آخر اس بات پر مجبور ہوئے کہ نوکری چھوڑ کر امریکا واپس چلے جائیں اور اپنے ہم وطنوں کو ان نادیدہ قوتوں کی کارستانیوں سے آگاہ کریں۔ انہوں نے کرنسی نوٹ کے متعلق لکھا کہ آہستہ آہستہ یہ بھی ختم ہو جائے گا۔ اس کی جگہ کریڈٹ کارڈ نے لے لی ہے۔ پھر کریڈٹ کارڈ بھی ختم ہو جائےگا لوگ کمپیوٹر کے ذریعے اعدادوشمار برابر کریں گے اور بس! ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہوگا۔
پانی اور غذا
آپ آج کل دیکھ رہے ہوں گے کہ قسما قسم مصنوعی عذائیں قدرتی غذائوں کی جگہ لے رہی ہیں۔ بسکٹ ، چاکلیٹ ، آئس کریم ، مکھن ، اچار ، چٹنی اور جام مربہ کی خیر تھی لیکن کولڈ ڈرنک اور مصنوعی مشروبات نے تو ایسا میدان مارا ہے کہ گائوں ، دیہاتوں میں لوگ دودھ، لسی، سکنجبین ، ٹھنڈائی اور تخم ملنگا تک بھول گئے ہیں۔ قدرتی دودھ دیہات میں بھی کسی قسمت والوں کو ہی ملتا ہے۔البتہ مصنوعی دودھ بیسیوں اقسام اور ذائقے کا ہر وقت ہر جگہ دستیاب ہے۔ اب تو شہد اور دودھ کے بعد ہر قسم کے کھانے بھی ٹن پیک میں آنا شروع ہو گئے ہیں۔
جانور مصنوعی نسل کشی کے ذریعے پیدا کیے جا رہے ہیں۔ فصلیں مصنوعی بیجوں اور کھادوں سے اگائی جا رہی ہے۔ پانی کا تو کہنا ہی کیا دریائوں اور چشموں کا معدنیات اور جڑی بوٹیوں کی کی تاثیر والا پانی تو پیتا ہی وہ ہے جس کے پاس منرل واٹر خریدنے کی سکت نہیں۔ جبکہ یہ دجالی قوتوں کی سیاست اور طاقت کے مظاہر میں سے ایک مظہر ہے۔ پانی اور غذا کو مصنوعی بنانے کی دجالی مہم اس لیے جاری ہے۔ کہ مصنوعی چیز صانع کے ہاتھ میں ہوتی ہے وہ جس کو جاہے دے بیچے نہ بیچے ، دے نہ دے جبکہ قدرتی چیز قدرت کے ہاتھ میں ہوتی ہے جو کہ پھولوں اور کانٹوں کا یکساں خیال رکھتی ہے۔ شہر تو شہر ہیں اب تو دیہاتوں میں بھی یہ حال ہے کہ واٹر سپلائی کی اسکیمیں اور ٹینک پائپ وغیرہ این جی اوز لگا کر دے رہی ہیں جو کہ آگے چل کے اس پر اجارہ داری قائم کریں گ#
PakSoldier HAFEEZ
No comments:
Post a Comment