Tuesday, February 06, 2018

C 130 طیارہ

ٹرانسپورٹ جہازوں کی دنیا سی-130 کے بغیر نا جانے کیسی ہوتی ۔ ملٹی رول صلاحیتوں کا حامل سی -130 ایوی ایشن کی دنیا کو ایک تحفہ ہے ۔دوسری جنگ عظیم کے بعد سی-123 اور سی 124 کی ناکام کے بعد لوکھیڈ نے 50 کی دہائی میں ایک ایسے جہاز پر کام کرنا شروع کیا جو کہ واقعی میں ٹرانسپورٹ ہو ہیوی ٹرانسپورٹ کے ساتھ فوجیون کی نقل و حرکت سامان ائیر ڈارپ کرنے کے لیے ایک ایسا جہاز جو سب کام کر سکے بغیر کسی دقت کے ۔ پہلے دو وائی سی-130 بنائے گئے جنہیں تجربوں سے گزارا گیا اور تبدیلیوں کی بعد امریکی روایت کے مطابق وائی ہٹا کر سی-130 نام رکھ دیا گیا ۔ 1956 میں اسے امریکی فضائیہ اور اس کے فورا بعد آسٹریلوی فضآئیہ کو بیچا گیا ۔ پاکستان بھی اس کا پہلے خریداروں میں سے تھا 1960 میں پاکستان کو پہلے 7 سی -130 ملے تھے۔
سی 130 کو ایوی ایشن کے ہر کام میں استمال کیا گیا ۔سامان اٹھانا ہو یا جہازوں کی ہوا میں ریفیولنگ آگ بجھانے کا کام ہو یا انٹار کٹکا کی برف پر اتر کے سامان کی ترسیل دشمن پر بڑے بم پھینکنے ہوں یا ائیر لائن کے لیئے مسافر جہاز ۔ سار مشن ہوں یا کمانڈوز اور چھاتہ برداروں کو دشمن کے سر پر اتارنا ۔سی آئی کے جاسوس مشنز ہوں الیکٹرونک جنگ کوئی بھی فیلڈ اس نے نہیں چھوڑی ۔ پچھلے 50 سال سے ان کو بنایا جا رہا ہے اور آگے بھی بنایا جاتا رہے گا اب تک 2300 سے زیادہ مختلف ماڈل بنائے جا چکے ہیں اور پرانے ماڈلوں کو اپگریٹ کیا جا رہا ہے ۔ سامان اٹھانے والے ماڈلوں کے نام
اے - بی 60 اور 70 کی دہائی میں بنائے گئے
- ڈی - ایچ 80 اور نوے کی دھائی میں بنائے گئے
- جے اور ٹی2000 کے عشرے میں بنائے گئے
میں تقسیم کیا گیا ہے
پاکستان کے پاس سارے سی ون تھرٹی ایچ ماڈل کے جہاز ہیں ۔
ایل-100 مسافر برادار جہاز تھے جو پی آئی اے نے بھی استمال کئے تھے
یہ 40 فٹ لمبا اور 38 فٹ اونچا ہوتا ہے ۔ اس کو 5 آفیسرز چلاتے ہیں جو پائلٹ نیویگیٹر فلائٹ انجیزز پر مشتمل ہوتے ہیں ۔یہ 92 مسافر اٹھا سکتا ہے یا 20 ٹن وزنی سامان ۔یہ خود 34 ٹن وزنی ہے ۔اسے بھی وہی پی تھری والے 4 ٹربو پراپ انجن چلاتے ہیں جنہیں ٹی 56 کہتے ہیں ۔
اس کی سپیڈ 600 کلم تک کی جا سکتی ہے وزن کے حساب سے سپیڈ کم زیادہ رہتی ہے ۔ اور یہ 3800 کلو میٹر تک اڑ سکتا ہے ۔ اس کی خاص بات اسے کچھی رن ویز اور فضائی پٹی پر بھی اتارا اور ٹیک آف کرایا جا سکتا ہے جو کہ صرف 1 کلو میٹر لمبی ہو ۔
پاکستان ائیر فورس کی اپنے دوسری جنگ عظیم والے ڈگلس 47 جہازوں کے بدلے 50 کی دہائی سے ہی ایک بڑے ٹرانسپورٹ جہاز کی ضرورت تھی ۔50 کی دھائی کے آخر میں پاکستان نے سی-130 کا سودا کیا اور پہلے 7 جہاز سی ون تھرٹی اے پاکستان کو 1960 میں ملے جنہیں نمبر 6 سکوڈرن میں شامل کیا گیا ۔ 4 سال بعد جنگ میں سی ون تھرٹی نے 1965 میں کئی اہم ترین مشن سر انجام دیے جن میں کمانڈوز کو اتارنا نقل و حمل سمیت مشہور 11 اور 12 ستمبر کی درمیانی شپ پاکستانی سی ون تھرٹی نے ٹسر بم گرا کر اندیا کی سپلائی لائن توڑی تھی یہ پل Kathua کے نام سے جانا جاتا تھا ۔ 15 ستمبر 1965 کو پاکستانی سی ون تھرٹی جہازوں نے رات کو ایک بار پھر بھارتی فوج پر کارپت بمباری کی جس میں ہر جہاز نے 9 ٹن بم گرائے تھے - 19 ستمبر کو ایک بار پھر پاکستنای سی ون تھرٹی جہازوں نے رات کو کارپٹ بمبار مشن مکمل کیا جس مین Rurki اور Pagowal کو نشانہ بنایا گیا اس کے بعد بی آر بی پر موجود اندین آرمی پر کارپٹ بمباری کا فیسلی بھی سی ون تھری سے کیا گیا اس میں ایک اندازے کے مطابق وہان اسوقت 72 ہوی گنز تھی جن پر پاکستان نے 30 ٹن سے زیادہ ٹی این ٹی گرایا ۔ جنگ کے بعد ونگ کمانڈر اور افسران کو میدلز سے نوازا گیا 7 افسران کو جو ساتوں جہازوں کے آفیسرز تھے ستارہ جرات سے نوازا گیا۔
جنگ کے بعد پاکستان کو مزید نو سی ون تھرٹی ملے جنہیں فلیت میں شامل کر دیا گیا ۔اگلی دھائی میں مزید 4 سی ون تھرتی جہازوں کو پے ایف مین شمولیت ملی ان میں سے 2 ایل-100 تھے جو پی ائی سے خرید کر فوجی ویرزن میں بڈلے گئے تھے ۔
17 اگست 1988 کو پاکستان کا پہلا سی ون تھرٹی کریش ہوا جس میں اس وقت کے صدر سمیت کئی افسران وفات پا گئے ۔
10 ستمبر1999 کو زمین پر چلتے ہوئے 2 سی ون تھرٹی چکلالہ ائیر بیس پر ٹکرا گئے
2004 میں پاکستان نے مزید 6 سی ون تھرٹی آسٹیرلیا سے خریدے
2005 سے 2009 تک پاکستان نے اپنے سارے 18 سی ون تھرٹی جہازوں کو ایچ ماڈل پر اپگریڑ کرا لیا اور ان میں سے ایک جہاز کو الیٹرونک وار فئیر سے لیس کرا دیا ۔ اس کے اوپر فلیئیر - ایڈوانس انفرائڈ کیمرے سابر سسٹم اور Star Safire سسٹم نصب ہیں ایک بہت ہی بڑا کیمرا اس کے نیچے نصب کی اجاتا ہے جس سے یہ پورے علاقے کی کلو میٹروں تک فظائی نگرانی کرتا ہے ۔سوات آپریشن کے دوران یہ طیارہ گیم چینجر ثابت ہوا فضا میں رہتے ہوئے اس نے وادی میں موجود دہشت گردوں کی ایک ایک نقل و حرکت اپنے طاقتور کیمروں کے ذریعے محفوظ کی اور ٹارگٹ بنا کر جیٹ طیاروں کے ذریعے بمباری کی گئی جس سے دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ گئی سوات آپریشن کے دوران اس طیارے کی افادیت چیک کرنے کے لیئے آپریشن سے قبل اس وقت کے آرمی چیف جنرل کیانی نے خود اس طیارے میں بیٹھ کر وادی کے اوپر دورہ کیا اور انہیں اس کے بارے میں بریفنگ دی گئی سوات آپریشن کی کامیابی میں اس جہاز کا بھی اہم کردار ہے۔
اسوقت پاکستان ائیر فورس کے ٹرانسپورٹ کا مین جہاز یہی ہے جسے چین کے بنے نئے جہاز وائی -20 سے تبدیل کیا جائے گا ۔ #PakSoldier HAFEEZ

No comments:

Post a Comment