Sunday, March 17, 2019

ایک گمنام کی داستان

ایک گمنام ہیرو کی لہو گرما دینے والی داستان، دنیا آج تک نہیں جان پائی وہ کون تھا۔ ارے بھئی یہ کسی آٹھویں پاس کی داستان نہیں بلکہ ایک ایسے لیجنڈ پاکستانی بمبار پائلٹ کی داستان ہے جو ایک ہیرو تو بنا لیکن آج تک کوئی اس کا نام نہ جان سکا اور یہ ہیرو تاریخ میں گمنامی کی چادر اوڑھے ہی دفن ہو گیا۔ 1965 میں جب پاک، بھارت جنگ شروع ہوئی تو پاکستان کے بی 57 بمبار طیاروں نے رات کے اندھیرے میں بھارتی اڈوں پر ہلا بول دیا۔ بمبار طیارے عام طور پر بہت بھاری بھرکم ہوتے ہیں اور وہ دشمن کی توپوں اور طیاروں سے بچنے کے لئے زیادہ پھرتی نہیں دکھا پاتے، اس لیے ان کے حملے رات کے اندھیرے میں ہوتے ہیں۔ اور یہ طیارے زمین کے پاس پاس ریڈار کی نگاہ سے بچ کر اڑتے ہوئے اپنے ہدف تک پہنچتے ہیں اور ہدف پر پہنچ کر یک دم طیارہ اوپر کھینچ کر ہدف پر ڈائیو کرتے ہیں اور ایک ہی حملے میں اپنے تمام بم گراتے ہوئے دشمن کے ہوشیار ہونے سے پہلے اس کی توپوں کی رینج سے باہر ہو چکے ہوتے ہیں۔ پاکستانی بی 57 طیارے 500 پاؤنڈ کے آٹھ بم لے کر جاتے تھے اور اسی طریقہ کو فالو کرتے ہوئے ایک ہی حملے میں آٹھوں بم گراتے ہوئے آگے نکل جاتے تھے۔ لیکن ایسے حملے میں لازمی نہیں ہوتا تھا کہ سارے بم ہی نشانے پر گریں۔ اکثر ایسا ہوتا کہ دو بم ایک ہی ٹارگٹ پر جا گرتے۔ جس کی وجہ سے ایکوریسی تو کم رہتی تھی لیکن یہ حملہ کرنے کا انتہائی محفوظ طریقہ تھا۔ لیکن بھارتیوں کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب جنگ کی پہلی ہی رات آدم پور ائیر بیس پر ایک اکیلے بی 57 طیارے نے حملہ کیا۔ یہ طیارہ اور اس کا پائلٹ کوئی عام پائلٹ نہیں تھا۔ ہوا کچھ یوں کہ طیارہ نے پہلے غوطہ لگایا اور صرف ایک بم گرا کر آگے بڑھ گیا۔ بھارتیوں کا پہلا ری ایکشن یہی تھا کہ باقی بم کسی خرابی کی وجہ سے نہیں گر سکے۔ لیکن وہ ششدر رہ گئے کہ جب بمبار طیارہ دوبارہ گھوم کر واپس آیا۔ اس نے پھر غوطہ لگایا اور ایک اور بم تاک کر ایک اور نشانے پر گرایا اور آگے نکل گیا۔ اس دوران بھارتی طیارہ شکن توپوں نے ہوا میں گولیوں کا جال بن دیا تھا لیکن بمبار طیارے کے پائلٹ کو کوئی جلدی نہیں تھی اور نہ ہی اسے اپنی جان پر کوئی خوف تھا۔ وہ پھر واپس آیا ایک بم ایک اور نشانے پر انتہائی ایکوریسی سے گرایا اور آگے نکل گیا۔ یوں اس بمبار طیارے نے ہر ایک بم کو گرانے کے لیے الگ سے واپس آ کر غوطہ لگایا اور بم کو پورے غور فکر کے ساتھ تاک کر نشانے پر پھینکا۔ اس طرح اس نے اپنی جان کو خطرے میں ضرور ڈالا تھا لیکن اس کے آٹھوں بم آٹھ انتہائی اہم ہدف تباہ کر چکے تھے یوں اس کی ایکوریسی 100 فیصد رہی تھی۔ اس حملے کے بعد بھارتیوں کی جانب سے اس بمبار پائلٹ کو "ایٹ پاس چارلی" کا نام دیا گیا۔ پوری جنگ کے دوران ایٹ پاس چارلی مختلف اڈوں پر حملے کرتا رہا۔ وہ ہمیشہ اکیلا آتا تھا اور پہلے بم کے ساتھ ہی وہ بھارتیوں کو کھلا چیلنج دیتا کہ میں نے ابھی سات چکر اور لگانے ہیں، تم سے جو ہوتا ہے کر کے دیکھ لو اور یہ اس پائلٹ کی مہارت کی انتہا تھی کہ کبھی کسی طیارہ شکن گن کی گولی اسے چھو بھی نہ سکی۔ دشمن کو دھوکے میں ڈالنے کے لیے ایٹ پاس چارلی ایک انوکھا کام کیا کرتا تھا۔ اندھیری رات میں طیارہ تو دکھائی دیتا نہیں تھا تو دشمن کے توپچی طیارے کی آواز سن کر اندازہ لگاتے تھے کہ طیارہ کس جانب سے آرہا ہے۔ ان توپچیوں کو پریشان کرنے کے لیے غوطہ لگاتے وقت چارلی اپنے انجن بند کر دیتا۔ اگرچہ اس کی وجہ سے طیارہ سنبھال پانا بہت مشکل ہو جاتا لیکن بھارتی توپچیوں کو طیارے کا اس وقت پتہ چلتا جب وہ بم گرا چکا ہوتا اور اس کے بعد وہ انجن آن کر کے پلک جھپکتے ہی ان کی رینج سے باہر نکل چکا ہوتا تھا۔ ایٹ پاس چارلی کے بارے میں ایک بھارتی پائلٹ پیڈی ارل (Paddy Earl) کے الفاظ یہ ہیں۔ "I have the utmost respect for the Pakistani Bomber bloke who loved to ruin the equanimity of our dreary lives! 8-Pass Charlie was an ace, but he had this nasty habit of turning up about 30 min. after moonrise, just as we were downing our first drink! Seriously, he was a cool dude and a professional of the highest order. To disguise the direction of his run, he used to cut throttles before entering a dive and by the time the ack-ack opened up he was beneath the umbrella of fire. After dropping his load he'd apply full throttle and climb out above the umbrella." ترجمہ: میں اس پاکستانی بمبار پائلٹ کے لیے انتہائی عزت کے جذبات رکھتا ہوں جسے ہماری زندگیوں کا سکون برباد کرنا انتہائی پسند تھا۔ ایٹ پاس چارلی ایک ایس (لیجنڈ) تھا لیکن اس کی یہ عادت بہت بری تھی کہ وہ چاند نکلنے کے ٹھیک 30 منٹ بعد اپنے ہدف پر پہنچ جاتا۔ عین اس وقت جب ہم اپنے پہلے جام ختم کر رہے ہوتے تھے۔ وہ ایک اونچے ترین درجے کا انتہائی پروفیشنل پائلٹ تھا۔ اپنے حملے کی سمت چھپانے کے لیے وہ غوطہ لگانے سے پہلے انجن بند کر دیتا اور جب تک توپچی فائر کھولتے وہ پھٹتے گولوں کی چھتری سے نیچے آ چکا ہوتا تھا اور بم گرانے کے بعد وہ انجن کو فل پاوور پر کر کے گولیوں کی رینج سے باہر نکل جاتا۔ Quote taken from PVS Jagan Mohan and Samir Chopra's The India-Pakistan Air War of 1965 (Manohar Books, 2005)۔ لیکن اپنے دشمنوں کی جانب سے ایٹ پاس چارلی کا نام پانے والا یہ پائلٹ کبھی منظر عام پر نہیں آیا۔ اور آج تک کوئی نہیں جانتا کہ یہ پائلٹ کون تھا۔ ہاں سب کو یہ ضرور یاد ہے کہ کوئی تھا جسے دشمن کا سکون برباد کرنے میں عجیب سا مزہ آتا تھا۔ شوق پرواز کا رکھتے ھو تو شاہین بنو، یوں تو کوے بھی فضاؤں میں اڑا کرتے ھیں۔۔۔ نعرہ تکبیر اللہ اکبر #پاک_فوج_زندہ_باد #پاکستان_پائندہ_باد #PAKSOLDIER_HAFEEZ

No comments:

Post a Comment