Tuesday, April 10, 2018

پاکستان کا پلوٹونیم بم

پاکستان کا پلوٹونیم بم
************
یہ ۱۹۸۶ء کی بات ہے‘ جنرل ضیاالحق نے منیر احمد خان کو کام تیز کرنے کااشارہ دے دیا۔ پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے سربراہ‘ منیر احمد خان طویل عرصے سے صدر کو یہ قائل کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ پاکستان کوپلوٹونیم سے بھی ایٹم بم بنانا چاہیے۔یہ امر لائق توجہ ہے کہ پاکستان اوائل میں پلوٹونیم کے ذریعے ہی ایٹم بم بنانا چاہتا تھا۔ وجہ یہی کہ پنجاب اور سندھ میں یورینیم کی کانیں دریافت ہو چکی تھیں۔ اسی لیے پاکستان ایسے ایٹمی ری ایکٹر لگانے کی کوشش کرنے لگا جہاں خام یورینیم کو پلوٹونیم میں بدلا جا سکے۔
 اس سلسلے میں پاکستانی حکومت نے کینیڈا‘ جرمنی اور فرانس سے معاہدے کیے۔ تاہم ۱۹۷۶ء تک ڈاکٹر عبدالقدیر خان یورینیم کے ذریعے ایٹم بم بنانے کا منصوبہ شروع کرچکے تھے۔ لہٰذا یورپی طاقتوںکواس خفیہ پاکستانی منصوبے کی بھنک پڑی‘ تو انھوں نے ایٹمی ری ایکٹر دینے کے معاہدے منسوخ کر دیے۔جنرل ضیاالحق برسراقتدار آئے‘ تو انھوں نے بیشتروسائل کا رخ یورینیم ایٹم بم بنانے کی سمت موڑ دیا۔ تاہم پلوٹونیم بم بنانے کا منصوبہ بھی جاری رہا۔
 بعض ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیرخان پلوٹونیم بم کا منصوبہ ختم کرنا چاہتے تھے۔ تاہم منیر احمد خان کی کوششوں سے وہ زندہ رہا۔دیگر ذرائع کا کہنا ہے کہ منیر احمد خان افزودہ یورینیم سے ایٹم بم بنانے کو مہنگا اور طویل المعیاد منصوبہ سمجھتے تھے۔ اسی لیے انھوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی حوصلہ افزائی نہیں کی تھی۔ آخر ڈاکٹر صاحب نے اپنا منصوبہ ایمٹی توانائی کمیشن سے علیحدہ کر دیا
------------------------------
۔پاکستانی پلوٹونیم کے ضمن میں ۱۹۸۰ء میں اہم پیش رفت ہوئی جب بیلجیم کے تعاون سے ہمارے ماہرین نے ملتان میں بھاری پانی (Heavy water)تیار کرنے والا ایک پلانٹ لگا لیا۔ اس بھاری پانی پلانٹ کی تفصیل خفیہ (کلاسیفائیڈ) ہے۔ بہرحال اس پلانٹ میں سالانہ ۱۳ ٹن بھاری پانی تیار ہو سکتا ہے۔منیراحمد خان نے ۱۹۸۰ء ہی میں نیلور (اسلام آباد) میں ایسے پلانٹ کی تعمیر شروع کرا دی جہاں ایٹمی ری ایکٹروں میں استعمال شدہ یورینیم کو پلوٹونیم میں بدلا جا سکے۔ اس پلانٹ کی تعمیر کے پروجیکٹ لیڈر مشہور ایٹمی کیمیا دان‘ چودھری عبدالمجید مقرر ہوئے۔

یہ ری پروسیسنگ پلانٹ ۱۹۸۱ء میں مکمل ہوا۔ یہ اب ’’نیو لیبارٹریز‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ قابل فخربات یہ ہے کہ اسے پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے سائنس دانوں‘ انجینئروں اور ہنرمندوں نے کمال مہارت سے مکمل کیا۔ یوں انھوں نے اپنی زبردست ذہانت اور محنت کا سکہ سبھی کے دلوں پر بٹھا دیا۔چودھری عبدالمجید۱۹۳۷ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۵۹ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایٹمی کیمیا میں ایم ایس سی کیا۔ بعدازاںآپ پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن سے وابستہ ہو گئے۔ ۱۹۶۴ء میں کمیشن سے اسکالر شپ حاصل کر کے بیلجیم چلے گئے۔ وہاں آپ نے کاتھولیکے یونیورسٹی سے ایٹمی کیمیا ہی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔

آپ ۱۹۷۴ء میں واپس آئے۔ جب نیلور ‘ اسلام آباد میں نیولیبارٹریز کی تعمیر شروع ہوئی‘ تو آپ کو اس کا پہلا ٹیکنیکل ڈائریکٹر بننے کااعزاز حاصل ہوا۔ بعدازاں آپ نے خوشاب اور چشمہ میں ایٹمی ری ایکٹر کی تیاری میں بھی سرگرم حصہ لیا۔ اکیسویں صدی کے اوائل میں وفات پائی۔کراچی میں کینوپ ایٹمی ری ایکٹر ۱۹۷۲ء سے کام کر رہا تھا۔ مگر بین الاقوامی ایٹمی توانائی کمیشن کے انسپکٹر اس کے معائنے پر مامور تھے۔ یعنی کینوپ سے استعمال شدہ یورینیم نیو لیبارٹری تک لانا ناممکن تھا۔ ایسی صورت میں پاکستان عالمی معاہدے توڑ ڈالتا جو یقینا قابل قبول بات نہ تھی۔
------------------------
لہٰذا فیصلہ ہوا کہ جوہر آباد (ضلع خوشاب) کے نزدیک ایسے ری ایکٹر تعمیر کیے جائیں جو بین الاقوامی توانائی کمیشن کی دسترس سے باہر ہوں۔ یوں ۱۹۸۹ء میں ’’خوشاب نیو کلیئر کمپلیکس‘‘ کی بنیاد پڑی۔ اس منصوبے کے پروجیکٹ ڈائریکٹر ایٹمی انجینئر‘ سلطان بشیرالدین بنائے گئے۔یوں جوہر آباد میں پہلا ایٹمی ری ایکٹر تعمیر ہونے لگا۔ اب دوبارہ پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے سائنس دانوں نے زبردست کارکردگی دکھائی اور شبانہ روز محنت کر کے ۱۹۹۶ء تک ایٹمی ری ایکٹر تعمیر کر دیا۔ ۲۰۰۰ء تک اس ری ایکٹر میں استعمال شدہ اتنا یورینیم اکٹھا ہو گیا کہ نیو لیبارٹریز میں اُسے ری پروسیس کر کے پلوٹونیم میں ڈھالا جا سکے۔’’خوشاب نیو کلیئر کمپلیکس‘‘ میں اب تک تین ایٹمی ری ایکٹر تعمیر ہو چکے جبکہ مزید دو پر کام جاری ہے۔ یاد رہے‘ ۲۰۰۰ء سے ’’چشمہ نیو کلیئر پاور کمپلیکس‘‘ پر بھی کام شروع ہو گیا۔ یہ کمپلیکس بھی پانچ ایٹمی ری ایکٹروں پر مشتمل ہو گا۔ تاہم پاکستانی حکومت یہاں استعمال شدہ یورینیم سے پلوٹونیم تیار نہیں کر سکتی… کیونکہ یہ ری ایکٹر بھی بین الاقوامی ایٹمی توانائی کمیشن کے زیرمعائنہ ہیں۔
#PAKSOLDIER_HAFEEZ
تازہ رپورٹوں کے مطابق ’’خوشاب نیو کلیئر کمپلیکس‘‘ میں چوتھا ایٹمی ری ایکٹر پایۂ تکمیل کو پہنچ چکا۔ چناںچہ وہاں عنقریب خام یورینیم کے ذریعے بجلی بنانے کا آغاز ہو جائے گا۔ یاد رہے‘ پہلے تین ری ایکٹر پچاس پچاس میگاواٹ بجلی پیدا کرتے ہیں۔
 ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر تینوں ری ایکٹر پچاس فیصد صلاحیت سے بھی کام کریں‘ تو وہ سالانہ اتنا استعمال شدہ یورینیم دے سکتے ہیں کہ اس سے ۱۸ تا ۲۱ کلو پلوٹونیم مل جائے۔ چونکہ ۵ سے ۶ کلو پلوٹونیم ایک ایٹم بم بنانے کے لیے کافی ہے۔ لہٰذا بین الاقوامی ماہرین کا تخمینہ ہے‘ ۲۰۰۰ء سے اب تک پاکستان پلوٹونیم کے کم ازکم پچاس ایٹم بم تیار کر چکا…
-----------------
نیلور اسلام آباد میں واقع نیولیبارٹریز ہر سال ۱۰ تا ۲۰ کلوپلوٹونیم تیار کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یوں پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے قابل و محب وطن سائنس دانوں نے پلوٹونیم کے ذریعے بھی ایٹم بم تیار کر کے قومی دفاع مضبوط سے مضبوط تر بنا دیا۔ گو اس منصوبے سے تعلق رکھنے والے پاکستانی دنیائے سائنس و ٹیکنالوجی کے کئے ستارے گمنام رہے‘ مگر یہ انہی کی محنت‘ سعی اور عزم مصمم کا کرشمہ ہے کہ آج ہمارے دشمنوں کو ہم پہ حملہ کرنے کی جرأت نہیں ہوتی۔پلوٹونیم کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے کم طاقت والے چھوٹے ایٹم بم برق رفتار میزائلوں میں نصب کر کے انھیں جلد از جلد دشمنوں کے سر تک پہنچانا ممکن ہے۔
 دوسری طرف ۱۹۹۸ء میں پاکستان نے ایٹمی دھماکے
کیے‘ تو بھارتی حکومت چوکنا ہو گئی۔ چناںچہ بھارت پچھلے سولہ سال کے دوران پلوٹونیم بنانے والے پانچ ایٹمی ری ایکٹر تعمیر کر چکا ہے۔
------------
ماہرین کا کہناہے کہ ایک ایٹمی قوت کے لیے یہ اہم بات نہیں کہ وہ کتنے ایٹم بم رکھتی ہے۔ اہمیت یہ ہے کہ اس کا ڈلیوری سسٹم کتنا تیز رفتار ہے…؟ اور اس شعبے میں پاکستان کو اپنے ممکنہ دشمن پر برتری حاصل ہے۔ ہمارے ذہین سائنس دان برق رفتار میزائل بناچکے۔ یہ میزائل چھوٹے بڑے ایٹم بم لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔پاکستانی ماہرین آج کل بابر کروز میزائل (حتف ہفتم) کا ایسا ورژن یا نمونہ ایجاد کرنے میں مصروف ہیں جسے آبدوز سے چھوڑا جا سکے گا۔ یوں پاکستان کو یہ موقع ملے گا کہ وہ سمندر کے راستے سے دوسرا حملہ (Second Strike)کر سکے۔

دین اسلام میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ زیادتی نہ کریں‘ تاہم اپنے دفاع میں جنگ لڑ سکتے ہیں۔ فرمان الٰہی ہے اللہ کی راہ میں ان سے جنگ کرو… مگر تب بھی زیادتی نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ زیادہ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ سورہ البقرہ۔ ۱۹۱)

No comments:

Post a Comment