Wednesday, September 27, 2017

ڈاکٹر عبدلقدیر خان نے پاکستان کے سب سے خطرناک میزائل کا نام غوری کیوں رکھا

ایک وقت ایسا بھی آیا جب پاکستان اور ہندوستان کے درمیان میزائلوں کی دوڑ جاری تھی ۔ بھارت بہت پہلے ایٹم بم کا تجربہ کر چکا تھا جبکہ 1998میں یکے بعد دیگرے پانچ دھماکے کر کے اس نے ایٹمی دھماکوں کی تعداد 6 تک پہنچا دی تھی۔ 5 ایٹمی دھماکوں کے بعد بھارت کی پاکستان کو نیست و نابود کرنے کی دھمکیاں جاری تھیں کہ اسی اثنا میں پاکستان نے بھی حساب برابر کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے بلوچستان کے علاقے چاغی میں یکے بعد دیگرے 6 ایٹمی دھماکے کر کے بھارت کا حساب یکمشت ہی برابر کر دیا جس سے بھارت کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔

پاکستان کا وجود بھارت کی آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے اور وہ پاکستان کے خلاف آئے روز نئی نئی سازشوں کا جال بنتا نظر آتا ہے۔ پاکستا ن کے ایٹمی دھماکوں کے بعد خطے میں طاقت کا توازن برقرار ہو گیا جو کہ بھارتی ایٹمی دھماکوں کے بعد خراب ہو گیا تھا۔

بھارت نے نئی چال سوچی اور ایٹمی دھماکوں کے بعد خطے میں برتری کیلئے تباہ کن میزائل پروگرام شروع کرتے ہی چند ہی عرصے میں پرتھوی میزائل کا تجربہ کر لیا جس کے بعد نہ صرف پاکستان کی سالمیت پر خطرات منڈلانے لگے بلکہ بھارت کو جواب دینے کیلئے یہ ضروری ہو گیا تھا کہ پاکستان بھی اپنے میزائل پروگرام کے ذریعے ہی اس کا جواب دے۔

پرتھوی کے بارے میں تاریخ بتاتی کہ کہ وہ ہندوستان میں دہلی اور اجمیر کا راجہ تھا، جسے شہاب الدین غوری نے شکست دی تھی ۔بھارت نے اسی راجہ کے نام پر اپنے سب سے خطرناک میزائل کا نام رکھا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ پاک فوج کے ایک مایہ ناز جرنیل جنرل شیر علی نے پاکستان میں شہاب الدین غوری کی قبر دریافت کی تھی جو حوادث زمانہ کے ساتھ بالکل مفقود ہونے کے قریب تھی۔

جنرل شیر علی شہاب الدین غوری کی قبر تک کیسے پہنچے ؟ یہ بھی ایک دلچسپ داستان ہے ، کہا جاتا ہے کہ جنرل شیر علی کو خواب میں جب شہاب الدین کی زیارت ہوئی تو وہ 1985ءمیں شہاب الدین غوری کی قبر کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے اور جلد ہی خواب میں بتائے گئے راستوں اور نشانیوں کے ذریعے ان کی قبر تک جا پہنچے۔ مقامی لوگوں سے رابطہ کیا، تو معلوم ہوا کہ واقعی اس قبرکے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ یہ غوری کی قبر ہے، لیکن غوری کے بارے میں جانتے نہ تھے۔ وہ خواب میں یہ قبر بھی دیکھ چکے تھے، چنانچہ انہوں نے یہاں صفائی کرائی اور قبر کے اردگرد کافی جگہ کے گرد کانٹے دار تار لگوادی۔“

جب بھارت نے پرتھوی میزائل کا تجربہ کیا تو پرتھوی کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ ہندوستان میں دہلی اور اجمیر کا راجہ تھا، جسےشہاب الدین غوری نے شکست دی تھی۔ چنانچہ انہوں نے پرتھوی میزائل کے جواب میں غوری میزائل بنایا چونکہ ڈاکٹر صاحب کے آباؤاجداد کا تعلق بھی ”غور“ سے تھا، تو انہیں جنرل شیر علی نے اس جگہ اور شہاب الدین غوری کے بارے میں بتایا چنانچہ انہوں نے سلطان کی قبر کا دورہ کیا ان کے ساتھ جنرل شیر علی بھی آئے۔

ڈاکٹر صاحب یہاں آئے تو ان کی آنکھوں سےبھل بھل آنسو جاری ہوگئے۔ وہ اس عظیم بادشاہ کی قبر کی یہ حالت دیکھ کر بہت دکھی ہوئے۔ چنانچہ ڈاکٹر قدیر خان نے نہ صرف قبر کے اردگرد جگہ خریدی، بلکہ اس مدرسے کی یہ جگہ بھی خریدی، جس پر غوری مسجد تعمیر کرائی گئی۔2000سے قبل ڈاکٹر قدیر شہاب الدین غوری کی قبر پر ہفتے میں ایک بار ضروری فاتحہ پڑھنے آتے تھے تاہم اس کے بعد یہ سلسلہ بالکل ختم ہو گیا ۔

No comments:

Post a Comment