سن انیس سو سڑسٹھ (۱۹۶۷ء) کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد یہودیوں نے اپنی فتح کا جشن پیرس میں منایا تھا۔ ان کے لیڈر بن گوریان نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ”ہمیں کسی عرب ملک سے کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے اگر ہمیں خطرہ ہے تو وہ صرف اور صرف پاکستان سے ہے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اسلامی ممالک سے تسلیم کرانے کا مطلب عظیم تر اسرائیل کی حمایت یعنی عالمی صیہونی حکومت کے منصوبے کے قیام کی تکمیل میں مدد کرنا یا مدد کرانا سمجھا جائے گا”۔
٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠
پاکستان کے پہلے وزیراعظم قائد ملت لیاقت علی خان کو دورہ امریکہ میں یہودیوں نے ایک بڑا استقبالیہ دیا، استقبالیہ کے سپاسنامے میں کہا گیا کہ آپ اسرائیل کو تسلیم کرلیں تو ہم آپ کو بے شمار مراعات دیں گے جس کا آپ تصور بھی نہیں کرسکتے جس پر قائد ملت نے انتہائی جرأت اور مردانگی سے جواب دیا کہ ”ہماری روحیں بکاؤ مال نہیں۔“ کہ ہم اسرائیل کو تسلیم کرلیں۔
٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠
اسی طرح کے الفاظ ایک بار پھر دہلی میں متعین اسرائیلی سفیر کے اعلیٰ کونسل مشیر لیوسی رائٹس کی جانب سے جنرل پرویز مشرف کیلئے کہے گئ کہ اگر ”صدر مشرف اسرائیل کو تسلیم کروالیں تو اسرائیل پاکستان کیلئے وہ کچھ کر سکتا ہے جس کا تصور کرنا بھی ممکن نہیں ہے“۔
٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠
٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠
دوسری طرف اسرائیل نے مسجد اقصیٰ کو شہید کرنے کی تیاریاں کرلی ہیں۔ مسجد اقصیٰ کو شہید کرنے کیلئے مسجد سے ملحق ایک دکان خرید کر اس کے اندر سے کھدائی کر کے مسجد اقصیٰ تک پہنچنے کی کوشش شروع کر دی گئی ہیں اسرائیل ہیکل سلیمانی کی تلاش کی آڑ میں مسجد اقصیٰ کو شہید کرنا چاہتا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے اس طرح کی پہلے بھی متعدد کوششیں ہو چکی ہیں، اس طرح کی کئی سازشیں پہلی بھی بے نقاب ہوئیں مگر ۵۸ اسلامی ممالک خاموش بنے یہودیوں کی شرمناک حرکتیں صرف دیکھنے، سننے کے علاوہ کچھ نہیں کرپاتے۔ چند مذمتی و تعزیتی بیانات داغ دیتے ہیں۔
٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠
سن انیس سو ایک(۱۹۰۱)میں برطانوی یہودیوں نے پہلا صیہونی بینک قائم کیا جس نے یہود کو روپے فراہم کئے انہوں نے فلسطین میں زرعی زمینیں خریدنی شروع کر دیں۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد عاقبت نااندیش عربوں کو بغاوت کے بدلے اپنوں سے تو آزادی ملی، لیکن ادھوری اور نامکمل آزادی وہ بھی محدود علاقوں تک باقی تمام مشرق وسطیٰ اور افریقہ پر فرانس، برطانیہ اور اٹلی مسلط ہوگئے۔ پورے خطے کا اصل اقتدار مغربی اتحادیوں کے ہاتھوں میں تھا اس عرصہ میں مغربی اقوام خصوصاً برطانیہ نے فوجی قوت کے بل بوتے پر یہودیوں کو فلسطین میں آباد کروا دیا۔ آہستہ آہستہ فلسطین کے عربوں سے زمینیں اور جائیدادیں چھین کر بے گھر کردیا گیا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران ہزاروں یہودی جرمنی سے بھاگ کر فلسطین میں آباد ہو گئے۔ ۱۹۴۷ء میں اقوام متحدہ کی مدد و تعاون سے امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے اسرائیل کی ریاست کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ ۱۹۴۸ء میں یہودیوں نے امریکی اور برطانوی اسلحہ سے لیس ہو کر باقاعدہ جدوجہد کا آغاز کر دیا۔ اس ہزاروں سال پرانی خواہش کی تکمیل کیلئے جو یہودیوں کے دلوں میں مچل رہی تھی یعنی عالمی صیہونی حکومت کاقیام۔ اس منصوبے کو یہود کی تنظیم فری میسن کے بڑوں نے تقریباً ایک سو دس سال قبل ۱۸۹۷ء میں آخری شکل دی تھی اور کئی برس کے مشوروں کے بعد اس دستاویز کا نام ”پروٹو کولز“ رکھا تھا۔ اس دستاویز کی نقل روسی پادری پروفیسر مرجائی اے ٹائلس کے ہاتھ فری میسن کی ایک رہنما خاتون کے ہاتھ لگی اور اس نے ۱۹۰۵ء میں اس کو کتابی شکل میں شائع کرایا۔ اس دستاویز میں اس سازشی منصوبے کی تمام تفصیلات ہیں۔ یہودیوں کی مسلح جدوجہد کے نتیجے میں لاکھوں فلسطینی عربوں کو جلاوطن ہونا پڑا۔ عربوں کو یہ دن ان کی عاقبت نااندیشی اور عیاشی کے باعث دیکھنا پڑا، آخرکار امریکہ اور برطانیہ نے مشرق وسطیٰ میں فلسطین کی سرزمین پر اپنی پٹھو اسرائیلی ریاست قائم کرنے کا خواب پورا کر دیا۔ یوں مشرق وسطیٰ کے نقشے پر درحقیقت عربوں کے سینے پر اسرائیل کی صیہونی ریاست ۱۴/ مئی ۱۹۴۸ء کو رات کے بارہ بجے قائم ہو گئی اس قوم کی حکومت اور ریاست کا من حیث القوم اس خطے میں ۵۸۶ ق م کے بعد کوئی وجود نہ تھا۔ ڈیوڈ گوریان اس کے پہلے وزیراعظم اور مشہور سائنس دان پروفیسر ڈاکٹر ویزمین اس کے پہلے صدر بنے۔ اسرائیل کے قیام کے دو گھنٹے بعد سب سے پہلے اس کے سرپرست امریکہ نے اسے تسلیم کیا۔ دو دن بعد روس نے بھی اسے تسلیم کرلیا۔ اسرائیل کے پہلے وزیراعظم کا پہلا بیان جو کہ آج بھی ریکارڈ پر ہے، یہ دیا کہ ”دنیا میں ہمارا کوئی دشمن نہیں سوائے پاکستان کے“ چونکہ یہودی قوم یہ اچھی طرح جانتی تھی کہ نبی آخرالزماں آقا علیہ الصلواة والسلام نے پاکستان کے قیام کی خوشخبری ۱۴ صدیاں قبل ہی دے دی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے فرمایا ”میں عرب میں ہوں عرب مجھ میں نہیں میں ہند میں نہیں ہند مجھ میں ہے۔ مجھے ہند سے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں آ رہی ہیں۔“ جس پر علامہ اقبال نے نظم لکھی۔
میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے
آپ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے ایک اور موقع پر یہ بھی ارشاد فرمایا ”کہ دور فتین میں جب دین اسلام پر جمود طاری ہوگا تو اس وقت اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت سے ایک غیرعرب قوم ہندوستان پر جہاد کر کے دین اسلام کی عزت کو بحال کرے گی“۔ #PakSoldier HAFEEZ
No comments:
Post a Comment