Wednesday, September 20, 2017

ایک سی آئی ای کا ایجنٹ سترہ لاکھ خفیہ دستاویزات کی نقل لیکر امریکہ کی سر زمین سے فرار


فرار ہوکر دنیا کے کئی ممالک میں چھپتا چھپاتا آخر روس میں آکر قیام پذیر ہوتا ہے۔

روس میں داخل ہونے سے پیشتر وہ دستاویزات کو تین الگ گروہوں کو اس وعدے کے ساتھ سونپتا ہے کہ وہ اس کا تجزیہ اور مشاہدہ کرکے وقتاََ فوقتاََ عالمی افق پر ظاہر کریں گے۔

اس نے امریکی حکومت کے جو قومی راز انٹیلی جنس خزانے سے اڑائے، اب اس کے پاس نہیں، وہ انہیں روس نہیں لاسکا۔

یہ راز اب تین گروہوں کے پاس ہیں:

اول لُک میڈیا جس کے کرتا دھرتا امریکی صحافی گلین گرین اور لارا پوئٹرس ہیں۔ دوم برطانوی اخبار گارڈین اور سوم امریکی صحافی بارٹن گیلمان۔

تاہم امریکا میں ایسا کوئی قانون نہیں جس کے ذریعے امریکی حکومت ان گروہوں سے زبردستی اپنے راز واپس لے سکے۔

ماہرین کمپیوٹر کا ماننا ہے کہ اس نے ان خفیہ دستاویزات کی نقل اور تلاش جس سافٹ ویئر سے کی وہ ویب کرالر کے نام سے جانا جاتا ہے۔

اس کے چرائے گئے رازوں کی تفصیل خاصی لمبی چوڑی ہے اور وہ ابھی تک منظر عام پر کسی نہ کسی فورم سے آتے رہتے ہیں۔

لیکن ہماری دلچسپی ان رازوں سے ہے جو پاکستان اور اسلام سے متعلق ہیں۔

یہ سال 2013 ماہ جون کی بات ہے، پاکستانیوں نے عالم حیرت و پریشانی میں یہ خبر سنی کہ امریکی حکومت دنیائے نیٹ پر وسیع پیمانے پر ان کی جاسوسی کررہی ہے۔

جو پاکستانی گوگل، سکائی پی، ایم ایس این براؤزر، یاہو، ایپل وغیرہ استعمال کرتا، وہ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ریڈار میں آجاتا۔

تب ایجنسیاں مسلسل باخبر رہتیں کہ فلاں پاکستانی نیٹ یا موبائل پر کس سے ملاقاتیں اور باتیں کررہا ہے،کن ویب سائٹوں پر جارہا ہے اور اس کی کیا سرگرمیاں ہیں۔

امریکی انٹیلی جنس ایجنسیاں پاکستانیوں ہی نہیں بھارتیوں، ایرانیوں، روسیوں درحقیقت دنیائے نیٹ پر ہر قومیت کے باشندوں پر نظر رکھے ہوئے تھیں اور کسی کو علم نہ تھا کہ ’’بگ برادر‘‘ (ایک خفیہ امریکی کمپیوٹر پروگرام) خفیہ طور پر اس کی سرگرمیاں نوٹ کررہا ہے۔

اس کے علاوعہ اس نے امریکی ڈرون پروگرام کی سفاکیت اور قابلیت کے راز بھی فاش کیئے۔

اس کے ان چرائے گئے رازوں کو اولین طور پر مشہور امریکی تفتیشی صحافی جیمز بامفورڈ نے منظر عام پر ظاہر کیا اس ایجنٹ کے فرار کے نو ماہ بعد اسکے ساتھ ایک انٹرویو میں۔

جب وہ سی آئی اے چھوڑ کر وہاں سے فرار ہوا تب اسکی عمر 29 سال تھی۔

لوگ اس امریکی تائب ایجنٹ کو جارج ایڈورڈ سنوڈن کے نام سے جانتے ہیں جو مئی 2013 تک ایک سی آئی اے ایجنٹ تھا جس کو ایک عام آدمی کے مقابلے حکومتی مراعات اور زندگی کی ساری آسائشیں دستیاب تھیں۔

مگر انسانیت کے ناطے اور ضمیر کی آواز پر اس نے لبیک کہا اور آج امریکہ کو انتہائی مطلوب افراد میں سر فہرست ہے۔

اسے امریکہ کی تاریخ کے بدترین غدار کا خطاب مل چکا ہے۔

اس پر امریکی قوانین کی رو سے غداری کے مقدمات درج ہیں جن کی سزا صرف موت ہے۔

وہ اس وقت روس میں ہے مگر محدود آزادی کے ساتھ۔

امریکہ کے حواس پر وہ اس قدر حاوی ہے کہ واشنگٹن پوسٹ کی ایک مصدقہ رپورٹ کے مطابق امریکی سی آئی اے نے "سنوڈن سیل" قائم کرلیا ہے جو صرف اس ایک ایجنڈے پر کام کرے گا کہ جارج ایڈورڈ سنوڈن اور اسکی طرف سے چرائے گئے راز کس طرح واپس امریکہ لائے جاسکتے ہیں۔

اب بیچارا اسنوڈن پچھلے چار برس سے امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ چھپن چھپائی کھیل رہا ہے۔

روس نے اسے پناہ دے رکھی ہے، مگر امریکی جاسوس شکاری کتوں کی مانند اس کی بو سونگھتے پھرتے ہیں۔

بعید نہیں کہ اسرائیلی جاسوس جس طرح 1960ء میں جرمن فوجی افسر، ایڈلف ایخمان کو ارجنٹائن سے اغوا کر لائے تھے، اسی طرح سی آئی اے بھی سنوڈن کو روس میں دبوچے اور امریکا لے آئے۔ امریکی حکومت اسے ’’غدار‘‘ قرار دے چکی اور غداری کی سزا موت ہے۔

ایڈورڈ سنوڈن ایک شرمیلا، بھیڑبھاڑ سے دور رہنے والا نوجوان ہے۔

اسے اپنی تشہیر بھی پسند نہیں، اسی لیے دنیا والے کم ہی جانتے ہیں کہ سنوڈن نے آمریکا سے کیوں ٹکر لی اور اپنی جان خطرے میں ڈال دی؟

یہی اہم سوالات جاننے کی خاطر مشہور امریکی انویسٹیگیٹو صحافی، جیمز بامفورڈ ماسکو پہنچا۔

وہ اسکے فرار کے بعد نو ماہ سے کوششیں کررہا تھا کہ کسی طرح سنوڈن سے انٹرویو ہوسکے۔

وہ لکھتا ہے :

’’ جب سنوڈن امریکی تاریخ میں سب سے زیادہ قومی راز چرا کر فرار ہوا اور روسیوں نے اسے پناہ دی، تو امریکا میں اکثر لوگ یہی سمجھنے لگے کہ وہ روس کا ایجنٹ تھا۔ تاہم یہ الزام محض افواہ ہے۔آج ایڈورڈ سنوڈن کسی ملک کا شہری نہیں اور صرف میڈیا میں ہی اس کا چرچا سننے کو ملتا ہے… بہت کم لوگ اس سے ملاقات کرپاتے ہیں ۔ اس سے بھی کم لوگوں کو علم ہے کہ وہ رہتا کہاں ہے۔ تاہم وہ دنیا بھر میں جمہوریت، شخصی آزادی اور امن سے محبت کرنے والے کروڑوں انسانوں کا محبوب ہیرو بن چکا ہے۔‘‘

یہ تو ہے اس ایجنٹ اس جاسوس کی کہانی جو حق سچ کی آواز اٹھا کر غدار ٹھہرا۔اس کے اپنے لوگوں نے تو اس کو مجرم بناکر اس کی سچی باتوں کو نظر انداز کیا سو کیا لیکن جن (وسطی ایشیاء بلخصوص پاکستان) کا درد محسوس کرکے وہ استبداد سے ٹکرایا اور دربدر ہوا انہوں نے بھی اسکی باتوں کو نظر انداز کردیا اور ان حرکات اور خفیہ رازوں پر جنکی روشنی میں امریکہ کی اسلام اور پاکستان دشمنی واضح ہوچکی ہےامریکہ یا اقوام متحدہ میں ہلکا سا احتجاج بھی نہیں کیا۔

No comments:

Post a Comment