اہم جنگی ہتھیار جسے آج کل ہم ’’میزائل‘‘ کہتے ہیں ٹیپو سلطان کی فوج کا اہم ہتھیار تھے۔ یہ اس وقت جدید ٹیکنالوجی کا شاہکار تھا اور اس کی نقشہ گری سے لے کر تیاری تک کا سہرا خود ٹیپو سلطان کے سر جاتا ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ ٹیپو سلطان ایک ماہر جنگی ڈیزائنر بھی تھے اور سمندری جہازوں کے نقشے اور ماڈل خود تیار کرتے تھے۔
میزائل سازی کی ابتداء تاتاری جنگجو خان اعظم چنگیز خان کے دور سے کر چکے تھے، مگر یہ میزائل زیادہ مہلک صلاحیت نہ رکھتے تھے، اسے دشمنوں پر آتش بازی کے لیے استعمال کیا جاتا تھا. پھر تاتار نسل کے مسلم جنگجو امیر تیمور نے بارود کے ساتھ ملا کر استعمال کیا اور اس کی ہلاکت خیزی میں مزید اضافہ کیا، مگر میزائل کی موجودہ شکل و صورت اس کی ساخت اور استعمال کی جو تکنیک اس کے ابتدائی تصور اور اور اس کی تیاری کی سہرا شیرِ میسور ٹیپو سلطان کے سر جاتا ہے۔ جس نے نہایت مہارت سے اس کو جنگی ہتھیار کی شکل و صورت دے اسے اس دور کے مطابق جدید خطوط پر ڈھالا اور دشمن کے خلاف موثر ہتھیار کے طور پر استعمال بھی کیا۔ اس سے ہم شیر میسور کی اعلیٰ ذہنی و حربی صلاحیتوں کا اندازہ کر سکتے ہیں۔
ریاست میسور میں میزائل سازی کی صنعت نے اسے اردگرد کی ریاستوں سے ممتاز کر دیا تھا. میزائل سازی کی صنعت میں ٹیپو سلطان کو خاص طور پر اپنے فرانسیسی جنگی ماہرین کی معاونت بھی حاصل رہی ہو گی اسی وجہ سے اس دور میں ٹیپو سلطان کی حربی صلاحیت برصغیر کے دیگر سہل پسند اور پالکی میں بیٹھ کر جنگ پر جانے والے نوابوں اور مہاراجوں سے کئی گنا زیادہ بہتر تھی۔ ریاست میسور کے چار شہروں میں ’’تارا منڈل‘‘ کے نام سے اسلحہ سازی کے کارخانے قائم تھے جن میں میزائل، توپیں اور اعلیٰ قسم کی بندوقیں تیار کی جاتی تھیں۔ علاوہ ازیں بحری جہازوں کی صنعت سازی میں میسور کو بلند مقام حاصل تھا۔ کیوں کہ ٹیپو سلطان خود ان کے نقشے بنانے کا ماہر تھا اور بحری جہازوں کو سمندر میں مقناطیسی چٹانوں سے بچانے کے لیے لوہے کی بجائے تانبے کے استعمال کا سہرا بھی شیر میسور کے سر جاتا ہے۔
سلطان ٹیپو کے تیار کردہ میزائل سیدھی تلوار کی طرح فولادی نوک دار ہوائی کی بناوٹ کے تھے جن کے اندرونی حصے میں بارود بھرا جاتا۔ میزائل کی دُم میں فیتہ لگا ہوتا جسے بوقت ضرورت آگ لگائی جاتی تو یہ تیزی سے اپنے ہدف کی طرف پرواز کرتا۔ یہ میزائل 2 کلومیٹر تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ عہد ماضی میں انہیں ’’اُڑتی تلواریں‘‘ بھی کہا جاتا تھا۔ جب یہ اڑتی تلواریں درجنوں کی تعداد میں دشمنوں پر برستیں تو بڑی تباہی مچ جاتی۔ اس لیے ’’کشون‘‘ کے نام سے علیحدہ بریگیڈ قائم تھا جس میں 15 سو سے 2 ہزار تک تربیت یافتہ فوجی مامور تھے۔
اس میزائل کا نام تغرق تھا. برطانیہ یہی سے یہ میزائل لے کر گیا اور نیویارک پر فائر کئے.
#PakSoldier HAFEEZ
No comments:
Post a Comment