یہ اس وقت کی بات ہے جب بھٹو کا دور حکومت ہچکولیاں کھا رہا تھا اس وقت لاہور میں موجود امریکی قونصل خانے کے قونصلیٹ کا پاکستانی ڈرائیور انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہا تھا لیکن بعد میں نا صرف وہ امریکہ گیا بلکہ وہاں پر مہنگے اور پوش بنگلوں کا مالک بن گیا۔ اس ڈرائیور سے ہمارے ایک ایجنٹ نے قونصلیٹ کا شیڈول مانگا تو اس ڈرائیور نے غصے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کے میں آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتا خدا کے لیے مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔ بعد ازاں اس پر نظر رکھی گئی تو پتا چلا کے اس کے ہم جنس پرستی کے حامی قونصلیٹ کے ساتھ جسمانی تعلق تھے جن کے عوض ڈرائیور کو نا صرف امریکہ کا ویزہ دیا گیا بلکہ شہریت سے بھی نوازا گیا۔
واقعہ سنانے کا مقصد یہ ہے کہ بحیثیت قوم ہم انتہائی کم دام اور سستے واقع ہوئے ہیں جو عزت و آبرو کے علاوہ اپنا ضمیر بھی چند ٹکوں کے عوض دشمن کے ہاتھوں فروخت کر دیتے ہیں لیکن اپنوں کے کام نہیں آتے جس کا خمیازہ ہمیں آئے روز ہونے والے دھماکوں کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے کیونکہ ان کے سہولت کار ہمارے ہی گلی محلوں میں رہنے والے وہ لالچی افراد ہیں جو چند ہزار ڈالرز کے لیے اپنے ہموطنون کا خون ناحق بہانے میں دہشت گردوں کے دست راست بنتے ہیں اور الزامات کی بوچھاڑ افواج پاکستان اور خفیہ اداروں پر کی جاتی ہے۔
یاد رکھو پاکستانیو کسی بھی ملک کی فوج یا خفیہ ادارے اس وقت تک جنگ نہیں جیت سکتے جب تک عوام ان کا ساتھ نا دے۔ میں آپ سے یہ نہیں کہتا کہ اپنا کام کاج چھوڑ کر بندوقیں اٹھاو اور بارڈر پر پہنچ جاو بلکہ میری تو صرف اتنی سی گزارش ہے کے اپنے اردگرد نظر رکھئے اور گلی محلے میں نظر آنے کسی بھی مشکوک شخص یا سرگرمی کی اطلاع قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دیجئے تاکہ بروقت کارروائی کر کے خون خرابے کو روکا جا سکے۔
یہ ملک صرف فوج اور آئی ایس آئی کی ذمہ داری بلکہ گلی کی نکڑ پر بال کاٹنے والے حجام سے لے کر بیوروکریٹس اور اسمبلی میں بیٹھے وزیر و مشیروں کی بھی ذمہ داری ہے۔ یہ ہمارا گھر ہے اور ہمیں اسکی حفاظت مل کہ کرنا ہو گی۔
No comments:
Post a Comment