Monday, October 16, 2017

بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ

بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ بہت پرانا ہے- اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم ڈیوڈ بن گورین نے اپنی ابتدائی پالیسی تقریر میں اعلان کیاتھا کہ ’’ہندومت اور صہیونیت دنیا کی دو قدیم ترین تہذیبیں ہیں-

یہ ایک دوسرے کی فطری حلیف ہیں- بن گورین نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ پنڈت جواہر لال نہرو (بھارت کے پہلے وزیراعظم) موجودہ دور اور خصوصاً تیسری دنیا کے عظیم لیڈر ہیں ، اس لئے ہمیں بھارت سے دوستی بڑھانی پڑے گی ‘‘ تو یوں بھا
رت اور اسرائیل دوستی کی بنیادی پڑی - بن گورین نے مختلف مواقع پر اپنے خیالات کی وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ دونوں ممالک غیر مستحکم علاقوں میں مستحکم جمہوریت کے علمبردار ہیں-

دونوں کے مشترکہ دشمن مسلمان ہیں- دونوں ممالک کو اسلامی دہشت گردی سے خطرہ ہے - ہمارے مسائل ایک جیسے ہیں ، اس لئے ہمارے لئے تعاون کے علاوہ کوئی چارہ نہیں- لہذا اسرائیل نے 1948ء میں اپنی آزادی کے فوری بعد بھارت میں اپنے وفود بھیجے جن کا مثبت جواب ملا- ان حالات میں بھارت نے 1950ء میں یعنی آزادی کے صرف دو سال بعد ہی اسرائیل کو تسلیم کرلیالیکن مسلمانوں خصوصاً عربوں کے ڈرسے بڑھتے ہوئے تعلقات خفیہ رکھے-

 عربوں کو خوش رکھنے کے لئے فلسطین کو بھی تسلیم کیا اور اسے نیو دہلی میں اپنا سفارتی مشن کھولنے کی اجازت دی- دونوں ممالک کے درمیان سب سے پہلے انٹیلی جنس شیئرنگ کا معاہدہ طے پایا- بھارت اسرائیل تعلقات آگے بڑھانے کے لئے بھارت میں آباد یہودیوں نے بھی بہت اہم کردار ادا کیا-

1950ء میں بھارت میں آباد یہودیوں کی تعداد تقریباً 32ہزار تھی اور یہ سب لوگ دولت مند اور با اثر لوگ تھے- بھارت کی لبرل پالیسی کے پیش نظر ان میں سے تقریباً 25 ہزار یہودی آہستہ آہستہ اسرائیل ہجرت کرگئے لیکن ان کے بزنس کنسرن اور تجارتی تعلقات بھارت سے قائم رہے جواب تک ہیں- دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارت کی ترقی کے لئے بھی ان لوگوں نے اہم کردار ادا کیا - اس وقت بھی وہی حیثیت ہے جو امریکہ میں یہودیوں کی ہے-

ان میں زیادہ تر لوگ بینک ، تعلیم اور امپورٹ ایکسپورٹ پر قابض ہیں اور سیاسی پارٹیوں میں اہم مقام رکھتے ہیں- ان کے اثر و رسوخ کو کوئی بھی سیاسی حکومت رد نہیں کرسکتی - ان لوگوں کی کوششوں سے 1992ء میں بھارت نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کئے- اس کے ساتھ ہی ’’را‘‘ اور ’’موساد ‘‘ کا مزید تعاون بڑھانے کا خفیہ معاہدہ ہوا- سفارتی تعلقات کے باوجود یہ تعلقات خفیہ رکھے گئے تاکہ عرب ناراض نہ ہوں -
اس دوران فوجی اور تجارتی تعاون بڑھتا رہا جس کی کوئی ظاہری پبلىسٹی نہ کی گئی -

بھارت اسرائیل تعلقات کی قربت اس وقت دنیا کے سامنے آئی جب ستمبر2003ء میں اسرائیل کے وزیر اعظم ارئیل شیرون نے بھارت کا دورہ کیا اور اس دورے میں کئی ایک تجارتی اور دفاعی معاہدوں پر دستخط ہوئے- سفارتی تعلقات نہ ہونے کے باوجود بھی اسرائیل نے شروع سے بھارت کی مدد کی – 1965-1962 اور 1971ء کی جنگوں میں اسرائیل نے بھارت کو ہتھیار اور مختلف نوعیت کی فوجی امداد فراہم کی - کارگل جنگ میں اسرائیل اہم مددگار ثابت ہوا- مختلف قسم کے الیکٹرانک ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ لیزرگائیڈڈ میزائل بھی فراہم کئے-
یہی وہ میرائل تھے جن کی مدد سے پہاڑوں پر پاکستانی بنکروں کو تباہ کیاگیا ورنہ ان بنکروں تک رسائی بھارت کے لئے ممکن ہی نہ تھی- اس کے ساتھ اسرائیلی آرمی آفیسرز کی ٹیم بھی کشمیر پہنچی جس نے حملے کی منصوبہ بندی میں خصوصی مدد کی-

اس  کے بعد بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ اس حد تک بڑھا کہ 2002ء میں جب بھارت پاکستان پر حملے کی نیت سے اپنی افواج پاکستانی سرحد پر لایا جسے آپریشن ’’پارا کرام ‘‘ کا نام دیا گیا- اس آپریشن کی منصوبہ بندی میں بھی اسرائیلی شامل تھے اور اسرائیل نے پاکستان پر حملے کے لیے خصوصی میزائل اور وسیع تباہی پھیلانے والے آرٹلری شیل- اندھیرے میں دیکھنے والے جنگی آلات اور جدید قسم کے راڈار فراہم کئے -

بھارت نے اسرائیل سے بہت کچھ سیکھا ہے- اس وقت مقبوضہ کشمیر میں جو  کارروائیاں ہو رہی ہیں وہ اسرائیلی تربیت ہی کانتیجہ ہیں- اسی طرح بھارتی کمانڈوز بھی اسرائیلی طرز پر اور اسرائیل ہی کی مدد سے تیار کئے جاتے ہیں- بھارتی ائیر فورس او رنیوی میں بھی اسرائیل کا بہت زیادہ عمل دخل ہے- بھارت کے ’’روسی ‘‘ طیارے بھی اسرائیلیوں نے ہی اپ گریڈ کئے ہیں- دونوں ممالک نیول ،ائیر اور بری فوج کی کئی ایک مشترکہ مشقیں کرچکے ہیں بلکہ ایسی مشترکہ مشقیں اب سالانہ شیڈول کی حیثیت اختیار کرگئی ہیں-

بھارتی افواج اسرائیلی ہتھیاروں کی بھی ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے- اسرائیل نے چھوٹے ہتھیاروں سے لے کر میزائلوں تک بھارت کو دیئے ہیں- ان ہتھیاروں پر بھارتیوں کو تربیت دینے کے لئے اسرائیلی ٹیمیں اکثر آتی رہتی ہیں جو مختلف مشقوں میں ان ہتھیاروں کے استعمال کے نتائج سے بھی باخبر رہتی ہیں- بھارت کی طرف سے اسرائیلی ہتھیاروں کی خرید اب 3بلین ڈالرز سالانہ تک پہنچ چکی ہے اور اس تجارت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے-

 اب یہاں سوال پیدا ہوتاہے کہ بھارت اسرائیل مشترکہ فوجی مشقیں آخر کس ملک کے خلاف تیاری کی ریہرسل ہیں؟ اس خطے میں تو اسرائیل کا کوئی دشمن نہیں- چین کے خلاف بھی اسرائیل کی کوئی عداوت نہیں کیونکہ چین بذات خود اسرائیلی ہتھیاروں کا خریدار ہے اور دونوں ممالک کے درمیان بہترین سفارتی و تجارتی روابط قائم ہیں - لے دے کے اس خطے میں پاکستان ہی ایک ایسا ملک ہے جسے یہ دونوں ممالک اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں خصوصاً جب سے پاکستان ایک جوہری طاقت بنا ہے-

پاکستانی میزائلوں کے خلاف اسرائیل نے تو میزائل شیلڈ کا تحفظ حاصل کر رکھاہے- بھارت کو ایسے حملے سے بچانے کے لئے اسرائیل نے جدید قسم کے Arrowنامی اینٹی میزائل فراہم کئے ہیں  حالات و شواہد یہی ظاہر کرتے ہیں کہ بھارت واسرائیل کا گٹھ جوڑ پاکستان ہی کی سلامتی کے خلاف ہے - اب تک جو بھی تیاریاں ہو رہی ہیں وہ سب پاکستان ہی کے خلاف ہیں ، #PakSoldier HAFEEZ

No comments:

Post a Comment