Sunday, October 22, 2017

قصہ چہار اطراف عرف پاک فوج کیوں کھٹکتی

ملک خطرے میں ہے۔ یہ فقرہ کثرت استعمال سے گھس گھس کر ایسا ریکارڈ بن چکا ہے کہ کوئی سننا پسند نہیں کرتا۔ لیکن سچ یہ ہے کہ ملک ہمیشہ کی طرح نہیں‘ ہمیشہ سے زیادہ خطرے میں ہے۔ ملک ہمیشہ خطرے میں رہا‘ اس میں کیا شک ہے۔ کیا1971ء میں ملک دو ٹکڑے نہیں ہوا؟ کیا1979ء میں سوویت یلغار کا مقصد بلوچستان کو اپنا صوبہ (سوویت ری پبلک) بنانا نہیں تھا؟ ایک جرنیل (یا جرنیلوں) نے اس وقت ملک کو بچانے کے لئے مزاحمت کا فیصلہ کیا اور سیاستدانوں نے ساتھ دیا۔ سوویت یونین اسی مزاحمت سے بکھرا۔ یہ الگ مزاحیہ کہانی ہے کہ جو دانشور اس وقت سوویت یونین کے حامی تھے اور پاکستان کو لعنت ملامت کئے بغیر انہیں واڈکاہضم نہیں ہوتی تھی‘ اب امریکہ کے نیازمندہوگئے ہیں۔ انہیں دیر سے پتہ چلا کہ امریکی شراب واڈ کا سے زیادہ نشیلی اور ڈالر روبل سے کہیں توانا ہے۔ پچھتاتے ہیں کہ شروع ہی سے آشنائی امریکہ سے کیوں نہ کی
۔------------------------------
 اب جو خطرہ ہے، وہ پہلے سے زیادہ ہے۔ پاکستانی فوج کو جب قومی اثاثے کے طور پر دیکھا جائے تو اس کی سیاسی غلطیاں بحث کا حصہ نہیں بن سکتیں۔ اس وقت ڈیڑھ ارب مسلمان آبادی میں دو ہی ملک ایسے ہیں جن کی فوج باقاعدہ طاقت ہے۔ ایک ترکی اور دوسرا پاکستان۔ بات انوکھی لیکن سچ ہے کہ پیشہ ورانہ معیار اور لڑنے کی صلاحیت کے اعتبار سے پاک فوج کو چین کی فوج پر برتری ہے (جنگوں میں پاک فوج کی شکستوں کا تعلق صلاحیت سے نہیں‘ سازشوں سے تھا۔ پھر اور کسی مسلمان ملک کی اتنی بڑی فوج نہیں ہے۔ افرادی طاقت کے حساب سے مصر کی فوج بلاشبہ کافی بڑی ہے لیکن وہ اتنی کمزور ہے کہ اسرائیل کی ایک بٹالین اسے تتر بتر کر سکتی ہے۔1967ء کی جنگ میں اسرائیل کی کل آبادی8لاکھ تھی۔ اس کی چند ہزار فوج نے مصر کی تین لاکھ کی فوج کی چٹنی چند گھنٹوں میں بنا دی ۔ 1973ء کی جنگ ’’امریکہ ‘‘ کی انجینئرنگ تھی جس کا مقصد اسرائیل کو دو ریاستی فلسطین کی نام نہاد تجویز (کیمپ ڈیوڈ معاہدہ‘ کہ فلسطینی شورش زیادہ خطرناک تھی )پر آمادہ کرنا تھا۔ مصری فوج نے نہر سویز کو پار کرکے بارلیولائن کو روند ڈالا۔ جس پر اسرائیلی فوج جوابی کارروائی کرکے قاہرہ کے قریب جا پہنچی اور امریکہ مداخلت نہ کرتا تو وہ پورٹ سعید اور اسکندریہ پر قابض ہو چلا تھا۔دوسری طرف اس کی فوج دمشق کے دروازے پر دستک دے رہی تھی۔
---------------------
 1967ء کی جنگ میں اسرائیل اور مصر کا کوئی موازنہ ہی نہیں تھا۔ اسرائیل بونا اور مصر دیو لیکن نتیجہ کیا نکلا۔ اسرائیل کے صرف سات سو فوجی ہلاک ہوئے جبکہ مصر کے15 ہزار سے زیادہ فوجی ہلاک ہوئے اور اسرائیل نے عملاًکسی مزاحمت کے بغیر اپنے سے بڑے رقبے کا علاقہ مصر سے چھین لیا۔ اس کی وجہ ہمارے مبصر یہ بتاتے ہیں کہ اسرائیل کے ہتھیار بہت زبردست تھے۔ غلط۔ مصر کے پاس ہتھیاروں کے انبار تھے۔ اصل وجہ یہ تھی کہ مصر کی فوج کو لڑنے کے سوا سب کچھ آتا تھا۔ ناصر سمیت فوج کے سارے جرنیل اور دوسرے کم رینک والے افسر24گھنٹے شراب و شباب کے سوا کوئی اور مصروفیت رکھتے ہی نہیں تھے۔ یہی حال شام اور اردن کا تھا۔ اسرائیل نے پورا مغربی کنارہ اور گولان کا سخت دشوار گزار پہاڑی علاقہ چند گھنٹوں میں لے لیا۔ شام کی فوج نے مقابلہ کیا نہ ہتھیار ڈالے۔ وہ صرف علاقے خالی کرتی چلی گئی۔ یہاں تک امریکہ نے جنگ بندی کرا دی۔ ہمارے ہاں کہانیاں ہیں کہ 1973ء کی عرب اسرائیلی جنگ میں بھٹو  نے شام کی مدد کی اور اس مدد سے شام نے اسرائیل کے دانت کھٹے کر دیئے۔ کھٹائی کی سچائی ملاحظہ ہو۔1973ء کی جنگ میں مصر اور شام کی فضائیہ مل کر صرف پانچ اسرائیلی جہاز تباہ کر سکی جبکہ اسرائیل نے ان کے 514 جہاز تباہ کئے۔514جہاز گنوا کر پانچ جہاز تباہ کرنا‘ کیا اسی کو دانت کھٹے کرنا کہتے ہیں۔ اور ان پانچ جہازوں میں سے چار مصر نے تباہ کئے ۔ شام نے صرف ایک گرایا
۔-----------------------
 مسلمانوں کی دو افواج اور تھیں۔ ایک عراق کی، دوسرے انڈونیشیا کی۔ عراقی فوج اسرائیل کے لئے خطرہ تھی نہیں لیکن بن چلی تھی۔اسے کیسی چالاکی سے تباہ کر دیا ۔ آج عراق عملاً ایک ’’آرمی لیس‘‘ ریاست ہے۔ اس کی سکیورٹی فورسز صرف اندرونی خطرات کو سامنے رکھ کر بنائی گئی ہے گویا وہ ایک ہائی ٹیک پولیس فورس ہے۔ انڈونیشیا بحر ہند اور بحرالکاہل کے درمیان میں جزیروں کا سلسلہ ہے اور اس خطے میں تنازعات کی کوئی شکل نہیں ہے۔ اس لئے انڈونیشی فوج بڑی ہونے کے باوجود اس لئے ’’معاف ‘‘ کر دی گئی ہے کہ کونے میں بیٹھی دہی سے روٹی کھا تی ہے‘ ہمارا کیا لیتی ہے۔
------------------
 چنانچہ اب دو فوجیں کھٹک رہی ہیں۔ ایک ترکی کی اور دوسرے پاکستان کی۔ ترکی کا پڑوس مغرب میں مشرقی یورپ ہے جس کا ترکی سے کوئی ٹکراؤ نہیں،اسوائے قبرص کے لیکن یہ معاملہ فی الحال ٹھنڈا ہے۔ پھر روس ہے جس کی وجہ سے ترکی کی فوج ضروری ہے۔ ترکی اسرائیل کے لئے خطرہ بن سکتا ہے لیکن یہ بہت دور کی بات ہے۔ پاکستان ایک زلزلہ افروز علاقے میں ہے۔ چہاراطراف میں پاکستان سے خطرہ ہو سکتا ہے بھارت سے جنگ ہو سکتی ہے‘ پاکستان چین کی مدد کر سکتا ہے (امریکہ چاہتا ہے پاکستان سنکیانگ میں مسلمان علیحدگی پسندوں کی مدد کرے ) پاکستان افغانستان میں کھنڈت ڈال سکتا ہے اور اس سے آگے وسط ایشیا میں اپنا اثر بنا سکتا ہے اور چوتھی طرف مشرق وسطیٰ ہے۔ سعودی عرب کی یمنی سرحد پر چھیڑ چھاڑ شروع ہے۔ سعودی عرب کو تقسیم کرنے کا امریکی منصوبہ پردہ راز سے باہر آکر روبہ عمل ہے۔ پاکستان سعودی عرب کے استحکام میں مدد دے کر اس منصوبے کو غیر موثر کر سکتا ہے اور مستقبل میں یہ خطرہ بھی کہ پاکستانی فوج براہ راست تو نہیں لیکن بالواسطہ اسرائیل کے مخالفوں کی مددگار ہو سکتی ہے۔ امریکہ کی یہ چہار اطراف پاکستانی فوج کی وجہ سے ’’غیر محفوظ ‘‘ ہیں۔-
---------------------
 تو بات صاف ہو جاتی ہے۔پاکستانی فوج کو انڈونیشی فوج کی طرح معاف نہیں کیا جا سکتا لیکن عراقی فوج کی طرح صاف بھی نہیں کیا جا سکتا۔ درمیانی راہ یہ ہے کہ اسے پاکستانی عوام کی نظروں میں ناپسندیدہ ادارہ بنا دیا جائے اور اندرونی تنازعات میں الجھا دیاجائے۔ فوج کمزور ہو جائے گی اور چہار اطراف ہیں سکون کی بہار لہلہا اٹھے گی۔ اور ہاں‘ ایک پانچویں ’’غیر جنگی ‘‘ سمت بھی ہے۔ گوادر بندرگارہ اپنے نیٹ ورک سے جڑ گئی تو کس کا معاشی نقصان ہوگا! کس کے منصوبے متاثر ہوں گے؟ ظاہر ہے امریکہ کے اور بھارت کے اور ان کے تیسرے اتحادی ’’ایران  ملک ‘‘ کے۔ اس پانچویں سمت کو ملا کر ناقابل برداشت ہونے کا پینٹا گان مکمل ہو جاتا ہے۔
 جو لوگ فوج کو متنازعہ بنا رہے ہیں وہ امریکہ کے ڈومیسٹک پلیز‘‘ ہیں۔ اور فوج کو متنازعہ بنانے کا طریقہ صرف یہی نہیں ہے کہ اس کے ماضی پر تنقید کی جائے‘ یہ بھی ہے کہ اس کے ’’مستقبل کے ارادوں‘‘ پر تشویش ظاہر کی جائے۔ کچھ حضرات حکومت کے دوست ہیں‘ کچھ فوج سے دوستی کا دم بھرتے ہیں۔ وہ حکومت کو فوج سے بدظن کرنے میں مصروف ہیں اور یہ فوج کو حکومت سے ناراض کرنے میں لگے ہیں۔
----------------
 
 یہ تو امریکی منصوبہ ہوا۔ بھارت کو اعتراضات سوا ہیں۔ سوچئے‘ پاکستان نہ ہوتا تو بھارت کو مشرق وسطیٰ کا ’’دادا‘‘ بننے سے کون روکتا؟ یہ غلط ہے کہ پاکستان کشمیر کو بھول جائے تو بھارت ہمارا بھائی بن جائے گا۔ وہ بھائی نہیں بنے گا‘ کشمیر سے بے فکر ہو کر اگلے پڑاؤ کیلئے چل پڑے گا۔
********************
#PakSoldier HAFEEZ

No comments:

Post a Comment