جائے پناہ کی تلاش اپنی جگہ، لیکن خلائی مخلوق سے رابطے کی جستجو اور زمین کے علاوہ دیگر سیاروں پر آبادیوں کے بارے میں تحقیقات نے بھی فلکیاتی علوم کے ماہرین کو اس بارے میں سنجیدگی سے غور و فکر کرنے پر مجبور کردیا ہے۔
اس سلسلے میں فلکیات کے ماہرین اور سائنسدانوں نے حال ہی میں ایسے سیاروں اور چاندوں کی فہرست تیار کرلی ہے جن پر کسی دوسری مخلوق یا زندگی کی موجودگی کے سب سے زیادہ امکانات موجود ہیں۔ اس فہرست کے مطابق زمین کے علاوہ کائنات میں جس جگہ زندگی کی موجودگی کا سب سے زیادہ امکان ہے وہ سیارہ زحل کا چاند ’’ٹائٹن‘‘ اور زمین سے ساڑھے ۲۰ نوری سال کے فاصلے پر واقع ’’لبرا‘‘ نامی کہکشاں میں موجود ’’۵۸۱ جی‘‘ نامی ایک سیارہ ہے۔ ایک نوری سال سے مراد وہ فاصلہ ہے جو روشنی ایک سال میں طے کر سکتی ہے، جبکہ اعداد و شمار کے مطابق ایک نوری سال میں تقریباً ۱۰ کھرب کلومیٹر ہوتے ہیں۔
عالمی سائسندانوں نے زمین کے علاوہ زندگی کے امکان کے سلسلے میں دو طرح کی فہرستیں تیار کی ہیں، جن سے حاصل ہونے والے نتائج آسٹروبایولوجی جرنل میں شائع کئے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک فہرست ایسے سیاروں یا چاندوں کی ہے جو زمین جیسے ہیں اور اسی مناسبت سے فہرست کو ’’ارتھ سمیلیرٹی انڈکس‘‘ یا زمین سے مطابقتی انڈیکس کا نام دیا گیا ہے، جبکہ دوسری فہرست میں ایسے اجرام فلکی شامل ہیں جہاں زندگی پنپنے کا امکان دکھائی دیتا ہے۔ اس فہرست کو ’’پلینیٹری ہیبٹبیلٹی انڈکس‘‘ یا قابلِ رہائش سیارہ انڈیکس کا نام دیا گیا ہے۔
اس تحقیقاتی مقالے کے شریک مصنف اور امریکہ کی واشنگٹن اسٹیٹ یونیورسٹی کے ڈاکٹر ڈرک شلزماکش کا کہنا ہے کہ ماہرین اپنے تجربات کی بناء پر یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ جہاں زمین جیسے حالات ہوں وہاں زندگی پنپ سکتی ہے، اس لئے پہلا سوال یہ تھا کہ کیا کسی اور دنیا میں بھی زمین جیسے حالات موجود ہیں؟
ان کے مطابق دوسرا سوال یہ تھا کہ کیا کائنات کی وسعتوں میں موجود کسی اور نظام میں کوئی ایسا سیارہ بھی ہے جہاں ایسا موسم ہو کہ وہاں کسی اور شکل میں زندگی پنپ سکتی ہو ، چاہے اس کی معلومات ہمیں ہوں یا نہ ہوں۔
جیسا کہ فہرستوں کے نام سے واضح ہے، پہلی فہرست میں سیاروں اور چاندوں کو اس بنیاد پر شامل کیا گیا ہے کہ وہ کس حد تک زمین سے مماثلت رکھتے ہیں، جبکہ اس سلسلے میں ان کے حجم، کمیت اور مادری ستارے سے فاصلے کومدنظر رکھا گیا۔ دوسری فہرست میں پیمانے قدرے مختلف رکھے گئے، جیسا کہ آیا اس سیارے کی سطح چٹانی ہے یا برفیلی؟ اور یہ کہ وہاں ماحول پایا جاتا ہے یا مقناطیسیت؟
سائنسدانوں نے اپنے تحقیق میں اس امر کا بھی مطالعہ کیا کہ کسی سیارے میں جانداروں کے لئے کسی طرح کی توانائی دستیاب ہے، مثلاً اسے اپنے مادری ستارے سے روشنی میسر ہے یا پھر وہ ٹائیڈل فلیکسنگ طریقے سے توانائی حاصل کرتا ہے؟ اس طریقے کے تحت کشش ثقل جیسی قوت کی وجہ سے سیارے یا چاند پر چیزوں کے باہمی رگڑ سے توانائی پیدا ہونے کا امکان ہوتا ہے۔
آخر میں قابل رہائش سیارہ انڈیکس کے تحت اجرام فلکی کی کیمیائی ساخت کا جائزہ لیا گیا کہ آیا وہاں قدرتی مادے موجود ہیں اور کیا وہاں کلیدی کیمیائی اعمال کے لئے مائع حل پذیر مواد میسر ہوگا؟
زمین سے مشابہتی انڈیکس میں بنیادی درجہ ایک تھا جو زمین کے لئے مخصوص تھا۔ دوسرے درجے پر ’’گلیذ ۵۸۱ جی‘‘ آیا جسے ۸۹ء۰ پوائنٹس ملے۔ یہ سیارہ ہمارے نظام شمسی سے باہر ہے جبکہ متعدد ماہرین نجوم نے اس کے وجود پر بھی شک کا اظہار کیا ہے۔ اس کے بعد اس سے ملتا جلتا ہی سیاروں کا نظام ’’گلیذ ۵۸۱ ڈی‘‘ آیا، جسے ۷۴ء۰ پوائنٹس دیئے گئے۔ سائنسدانوں نے گلیذ ۵۸۱ ڈی کا بغور مطالعہ کیا ہے اور یہ ایک سرخ رنگ کے بونے ستارے اور چار سیاروں پر مشتمل ہے۔
ہمارے اپنے نظام شمسی میں جن سیاروں کو سب سے زیادہ پوائنٹس ملے ان میں مریخ نے ۷۰ء۰ پوائنٹس اور عطارد نے ۶۰ء۰ پوائنٹس حاصل کئے۔ وہ سیارے یا چاند جو زمین کی طرح تو نہیں، لیکن پھر بھی وہاں زندگی موجود ہو سکتی ہے، ان میں سب سے زیادہ ۶۴ء۰ پوائنٹس سیارہ زحل کے چاند ٹائٹن کو ملے، جبکہ مریخ ۵۹ء۰ پوائنٹس کے ساتھ دوسرے درجے پر اور مشتری کا چاند یوروپا ۴۷ء۰ پوائنٹس کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہا۔
فلکیاتی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ حالیہ چند برسوں کے دوران ایسی دنیاؤں کی تلاش میں تیزی آئی ہے جہاں زندگی کی موجودگی کا امکان زیادہ ہو سکتا ہے۔ امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا نے سال ۲۰۰۹ء میں جو کیپلر نامی خلائی دوربین زمین کے مدار میں بھیجی تھی اس نے اب تک ایک ہزار ایسے سیاروں اور چاندوں کا پتہ لگایا ہے جہاں زندگی پنپنے کا امکان ہو سکتا ہے۔
اس بارے میں ناسا کا یہ بھی کا کہنا ہے کہ مستقبل میں تیار کی جانے والی خلائی دوربینوں میں یہ صلاحیت بھی ہوگی کہ وہ کسی بھی سیارے میں نامیاتی مواد سے نکلنے والی روشنی کو پہچان سکے، مثال کے طور پر کلوروفل کی موجودگی، جو کسی بھی درخت یا پودے میں موجود اہم عنصر ہوتا ہے۔
#PaKsoldier HAFEEZ
No comments:
Post a Comment