Tuesday, October 03, 2017
آئی ایس آئی نے ایٹمی ہتھیار بنانے والے حساس آلات کس طرح بھارت سے پاکستان منتقل کیے۔
مئی 1974 کو جب بھارت نے راجستھان میں مسکراتا بدھا نامی ایٹمی دھماکے کیے تو جواب میں پاکستان نے بھی ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ پر پابندی والے معاہدے (این پی ٹی) پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا، کیونکہ پاکستان کی سلامتی کے لیے اب ایٹم بم بنانا لازمی بن چکا تھا .
پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی میں اہم پیشرفت جولائی 1976 میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی پاکستان آمد کے بعد ہوئی ، 1977 میں جنرل ضیاءالحق کی حکومت آنے کے بعد پاکستان نے جرمنی ، فرانس اور کینڈا سے جوہری ٹیکنالوجی خریدنے کے لیے اہم اقدام اٹھائے .
حساس ترین آلات خریدنا اور انہیں پاکستان منتقل کرنا ایک اہم ترین مسئلہ تھا. پاکستان نے اس مقصد کے لیے یورپ ، مشرقی وسطیٰ ، سنگاپور اور بھارت میں آئی ایس آئی کے خاص تربیت یافتہ ایجنٹوں کا ایک جال بچھا دیا، جو حساس آلات مختلف ملکوں سے خریدتے اور انہیں پاکستان منتقل کرتے تھے.
امریکہ کو جب اس بات کا علم ہوا کہ پاکستان ایٹم بم بنانے کے راستے پر گامزن ہے تو امریکہ نے فرانس ، کینیڈا اور جرمنی پر پابندیاں لگا دیں کہ وہ پاکستان کو ایسی کوئی ٹیکنالوجی فروخت نہ کریں جو پاکستانی ایٹمی پروگرام میں پیشرفت کا باعث بنے، مگر جرمن نے امریکی پابندی کے باوجود پاکستان کو ٹریشم ٹیکنالوجی فراہم کی جو جدید جوہری بم میں استعمال ہوتی تھی.
اس بات کا انکشاف پاکستان کے سابقہ سفارتکار جمشید مارکر نے بھی اپنی حالیہ کتاب میں کیا ہے کہ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں جرمنی نے سب سے زیادہ کردار ادا کیا تھا، جمشید مارکر 80 کی دہائی میں جرمنی میں پاکستانی سفیر کا کام سر انجام دے رہے تھے ، جمشید مارکر لکھتے ہیں کہ پاکستان کو یورینیم افزودگی کا معیار پرکھنے والا آلہ سپیکٹرو میٹر ، ٹریشم ٹیکنالوجی سمیت اور بہت سے حساس آلات فروخت کرنے والا ملک جرمنی تھا.
آئی ایس آئی کے ایجنٹ یہ تمام آلات خریدنے کے بعد انہیں مختلف راستوں سے پاکستان منتقل کرتے تھے، آئی ایس آئی نے اس مقصد کے لیے سنگاپور میں ایک فرم بھی بنا رکھی تھی . اصل میں یہ ایک الجھن بڑی جنگ تھی ، پاکستان کو اپنا ایٹمی پروگرام دنیا کے سامنے لائے بغیر پائہ تکمیل تک پہنچانا تھا. ایک چھوٹی سی بھی غلطی سارے ایٹمی پروگرام کو دھبڑدوس کر سکتی تھی.
اس سارے پروسیس میں پاکستانی حکام کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ایلومینیم بھرت کے پائپوں کو خرید کر پاکستان لانا تھا. کیونکہ امریکہ نے ایلومینیم بھرت کی خریدو فروخت پر پابندی عائد کر رکھی تھی، جبکہ دوسرا بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ایلومینیم بھرت کے پائپ خریدنے کے بعد سنگاپور کے راستے پاکستان لائے جانے تھے، یاد رہیئے ایلومینیم بھرت یورینیم کو خالص کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے.
سنگاپور کے رستے ایلومینیم بھرت کے پائپ پاکستان لانے کے لیے جہازوں کا بھارت میں تیل ڈلوانے کے لیے ٹھرنا لازم تھا ، جبکہ پاکستانی حکام اس بات کا رسک نہیں لے سکتے تھے کہ ان کے حساس ترین آلات بھارت کے ہاتھ چڑھ جائیں ، جسکے کے بعد بھارت ثبوتوں کے ساتھ دنیا میں وویلا مچانا شروع کر دے.
یہ انتہائی سنگین ترین مسئلہ تھا کیونکہ سنگاپور کے علاوہ اور کوئی آپشن بھی نہیں تھا. یہ بظاہر ایک ناممکن ترین مشن تھا کہ آپ نے اپنی سب سے خفیہ اور حساس ترین چیز اپنے سب سے بڑے دشمن کی نظروں کے سامنے سے لے کر جانی ہے، ذرہ سا شک بھی سارے پلان کو دفن کر سکتا تھا . مگر اس مشکل ترین مشن کا بیڑہ بھی آئی ایس آئی کے مارخوروں نے اٹھا لیا.
آئی ایس آئی نے اس بات کا یقین دلایا کہ وہ حساس آلات پر بھارت کی نظر بھی نہیں پڑنے دے گئی ، اس مقصد کے لیے آئی ایس آئی کی سپیشل کمان کے ایجنٹوں کو پہلے بھارت اور سنگاپور کے ائیرپورٹوں پر تعنیات کیا گیا ، اور پھر بلکل کامیابی کے ساتھ نیوکلیئر سامان سے بھرے ہوئے جہاز بھارت کے ائیرپورٹ پر اترے کئی گھنٹوں سٹے کرنے کے بعد تیل ڈلوایا اور پاکستان آئے.
بھارت جو پاکستان کا سب سے بڑا دشمن تھا اس سارے معاملے میں بے خبر رہا کہ پاکستان اس کی زمین کو نیوکلیئر سامان منقل کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے ، یہ دنیا کی نظر میں ناممکن ترین مشن تھا جسے آئی ایس آئی نے ممکن کر دیکھایا. یونہی نہیں کہتے کہ آئی ایس آئی پاکستان کے دفاع کے آخری لکیر ہے جو پاکستان کی سلامتی کی خاطر ہر حد عبور کر جاتی ہے.
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment