Thursday, October 12, 2017

پاکستان کی میزائل پروگرام دنیا میں تیسرے نمبر پر

پاکستان اور پاکستانی قوم صلاحیتوں کے اعتبار سے برتر مہارت کا جوہر رکھنے والے ہیں پاکستان کے پاس ایسے تخلیقی ذہن رکھنے والے سائنسداں اور انجینئر ہیں جو ناممکن کو ممکن بنا سکتے ہیں انہوں نے ماضی میں اہم کارنامے انجام دیئے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ اگر انہیں کوئی ٹارگٹ دیا جائے خواہ وہ کسی میدان میں کیوں نہ ہو اور وہ اسے پورا نہ کر سکتے ہوں لیکن ہمارا المیہ یہ رہا کہ ہماری لیڈر شپ ایسی نہیں رہی جو مسقبل کا وژن رکھتی ہو اور اپنے بلاصلاحیت ہنرمندوں کو صحیح طورپر صحیح جگہ اور صحیح وقت پر استعمال کر سکتی ہو۔
بھارت نے 1974ء میں جس پلوٹوینم کے ذریعے دھماکہ کیا تھا وہ کینیڈا کے سپلائی کئے ہوئے 40 میگاواٹ کے ری ایکٹر سے حاصل کیا گیا تھا اس ری ایکٹر میں ہیوی واٹر استعمال کیا جاتا تھا اور یہ ”کانڈو“ قسم کا ری ایکٹر ہے اس سے ایک سال میں 9 کلو گرام پلوٹوینم حاصل ہو سکتا تھا جو ایک ایٹم بم بنانے کے لئے کافی تھا۔ اس وقت بھی کینیڈا نے بھارت کو وہ ری ایکٹر پرامن مقاصد کے لئے دیا تھا اس کو آج کے الفاظ میں سول ایٹمی تعاون ہی کہا جائے گا۔ بھارت نے وہاں سے وہ جوہری مادہ چوری کیا اور 1974ء میں اپنا ایٹمی دھماکہ کیا اس واقعے نے پاکستان میں تشویش کی لہر دوڑا دی، ہر پاکستانی یہ محسوس کرنے لگا کہ پاکستان کی سلامتی کیلئے خطرات حد سے تجاوز کرگئے ہیں اب پاکستان کی قیادت یہ سوچنے پر مجبور ہوئی کہ کیا وہ آنے والی نسلوں کو خوف کی کیفیت میں زندگی بسر کرنے کے لئے چھوڑ دیں کوئی بھی صاحب بصیرت شخص اور ملک و قوم سے محبت کرنے والا لیڈر ایسا نہیں کر سکتا تھا چنانچہ اسی لمحے شاید یہ فیصلہ کیا گیا کہ دیتانت پیدا کرنے کے لئے پاکستان کا جوہری صلاحیت حاصل کرنا ضروری ہے۔
دنیا نے دیکھا کہ پاکستان نے ایٹم بم بنانے کا ٹاسک پورا کیا اس کے لئے پاکستان کو کئی صبر طلب اور کٹھن مرحلوں کا سامنا کرنا پڑا   اور یہ کام ڈاکٹر عبدالقدیر کے ذمہ لگایا کہ وہ ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کو ممکن بنائیں گے اور پاکستان کو بہت جلد ایک ایٹمی قوت بنا کر یہ ثابت کر دیں گے کہ پاکستان مشکل ترین اور نامساعد حالات میں بڑے سے بڑا ٹارگٹ پورا کر سکتا ہے۔
 پاکستان اگر اپنے ذرائع سے ایٹم بم بنا سکتا ہے، ری پروسیسنگ پلانٹ تعمیر کر سکتا ہے، میزائل تیار کر سکتا ہے تو کیا وہ سول مقاصد کے لئے جوہری توانائی کے حصول کو ممکن نہیں بنا سکتا؟ مجھے سو فیصد یقین ہے کہ پاکستان کے  انجینئر اپنی علمی و تیکنیکی صلاحیت کو بروئے کار لاکر ری ایکٹر بھی بنا سکتے ہیں۔ پاکستان کو سول ایٹمی تعاون کے لئے بھیک مانگنے کی ضرورت نہیں ہے پاکستان نے چین کے تعاون سے  جو پاور پلانٹ لگائے ہیں ان سے جو تجربہ اور فنی مہارت اسے حاصل ہوئی ہے وہ ری ایکٹر سازی میں اہم ثابت ہو گی
پاکستان آج جس پوزیشن میں عالمی سطح پر کھڑا ہے یہ پوزیشن پاکستان کو پہلے کبھی حاصل نہیں رہی ہے  پاکستان کی آج کی برتر پوزیشن کیا ہے اس کو سمجھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ وہ برتر پوزیشن ہے کیا؟ اور پاکستان اس جگہ کیسے پہنچا ہے اور کیوں پہنچا ہے اور کس نے یہ پوزیشن پاکستان کو دلائی ؟ ان چار سوالوں کے جواب میں اس کا راز پوشیدہ ہے جب ان سوالوں کے جوابات مل جائیں گے تو وہ لائحہ عمل اور پلان آپ کے سامنے آجائے گا جس کی بدولت پاکستان کو یہ مقام حاصل ہوا ۔   Super Power Pakistan

No comments:

Post a Comment