Saturday, October 07, 2017

پاکستان نور ہے.... نور کو زوال نہیں

 اِسلام....دین ِ رحمت ہے.... اور اِسلام اور پاکستان لازم وملزوم ہیں۔ پاکستان بچانے کیلئے اِسلام ضروری ہے .... بغیر کسی تشریح کے !!درحقیقت اِسلام کو صرف ایک ہی تشریح کی ضرورت ہے اوروہ ہے صداقت ِ کردار!! اسلام .... دین ِ صداقت ہے۔ صداقت ِ کردار نہ ہو ‘ تودین ِ صداقت نفع نہیں دیتا۔ صداقت ِکردار نہ ہو ‘ تو دِین کا عالم بھی منافق کہلاتاہے ۔دراصل کوئی علم منافق کو مومن نہیں بناسکتا....کہ ایمان دلیل کانہیں‘ دِل کاسودا ہے۔ علم منافق کے خلاف ایک فردِ جرم بن جاتاہے ۔نفاق .... مفاد کامتلاشی رہتا ہے ....اور اخلاص.... ذات کا۔ اخلاص کے سوا ہر رشتہ .... منافقت کا رشتہ ہے۔ منافق .... مفاد کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا اور کسی موقع پرمفاد سے دست بردار نہیں ہوتا۔ مفاد پرست اور موقع پرست جب دین کی تشریح کرتاہے ‘ تواپنے لیے علیحدہ استحقاق کی شِق پیدا کرلیتاہے ....اس طرح دین ِ حق میںایک فرق رُونما ہو جاتا ہے .... یہی فرق فرقے کی اساس ہے۔ فرقہ .... فرق سے ہے.... اور اسلام میں فرقے کی گنجائش نہیں۔ حضرتِ واصفؒ نے کیا خوب کلیہ دیا ہے : ”اسلام + فرقہ = صفر “ .... ظاہر ہے صفر کے ہر سفر کا نتیجہ صفر ہو گا۔ اسی مضمون میں ایک جگہ آپؒ فرماتے ہیں : .... ” فرقہ پرست‘ حق پرست نہیں ہوسکتا“۔
ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ
اپنے وقت کے صاحب ِ حال حضرت واصف علی واصف ؒ ایک اورصاحب ِحال کی صداقت ِ کردار کی تصدیق کرتے ہوئے کہتے ہیں :
”صاحبانِ حال کے سلسلے میں قائدِ اعظمؒ کی مثال سب سے اہم ہے۔ وہ استقامت اور صداقت کا پیکر قائدِ اعظم ؒ کہلانے کیلئے کوشش نہیں کر رہاتھا۔ وہ مسلمانوں کی خدمت کے جذبے سے سرشار تھا۔ اُس کے خلوص کو فطرت نے قبول کیا۔ اُسے صاحب ِ حال بنا دیا ۔ فتویٰ اُس کے خلاف تھا لیکن فطرت اور حقیقت اس کے ساتھ تھی۔ اسے قائدِاعظم رحمة اللہ علیہ بنادیاگیا۔اہل ِشرع کا ایک گروہ اس بات کو اور اس واردات کو نہ پہچان سکا، معترض رہا۔ اہل ِباطن پہچان گئے کہ یہ کسی کی نگاہ کی بات ہے۔ یہ فیض ہے کسی ذات کا، یہ نصیب کا فیصلہ ہے۔ اہل ِباطن قائدِاعظم ؒ کے ساتھ ہوگئے، منزل مل گئی۔ ملک بن گیا۔ فتویٰ دینے والے آج تک نہ سمجھ سکے کہ یہ کیا راز تھا۔ قائدِ اعظم ؒ دلوں میں اُتر گئے اور مخالفین دِلوں سے اُتر گئے“۔
پاکستان ، اسلام اور قائدِ اعظم ؒکے درمیان معنوی ربط کی تفسیر بیان کرتے ہوئے آپ ؒ لکھتے ہیں:
 ” پاکستان بچانے کیلئے ہمیں اتناہی اِسلام درکار ہے جتنا قائدِاعظمؒ کے پاس تھا“
....ظاہر ہے قائد ِاعظمؒ کے پاس اِسلام کی عملی تفسیر تھی ....یعنی صداقت ِ کردار ! قائدِ اعظم ؒکے پاس امانت اور صداقت تھی ....یعنی کردار ِنبویﷺ کا حقیقی اتّباع !!
ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ
قائدوہ ہے ‘جو قیادت کی اہلیت رکھتاہو.... اور اہلیت صرف صلاحیت ہی کا نام نہیں.... امانت ، دیانت اور صداقت بھی اہلیت کالازمہ ہے۔ دین ِ صداقت کی نسبت صادق اور امین کے ساتھ ہے .... صداقت اور امانت کاجوہر جس شخص میںجس درجہ¿ کمال پر ہوگا ‘ دین ِصادق سے اُس کی نسبت اُسی قدر مستحکم ہوگی۔ امانت ‘ دیانت اور صداقت کے بغیردین ِصادق سے ہماری کیا نسبت ؟ ”دل دریا سمندر“ کے ایک مضمون ”قیادت“ میں آپ ؒ لکھتے ہیں :
” اِسلام میں قیادت تقویٰ سے مشروط ہے“
ساٹھ کی دہائی میں صدر ایوب نے پاکستان کے سرکاری نام سے ”اسلامی “کا لاحقہ حذف کرناچاہا‘ تو ایک مردِ درویش نے عجب وارفتگی کے عالم میں دُہائی دی :
 ” ہم پاکستانی صرف اِس وجہ سے بنے کہ ہم مسلمان تھے، اگر افغانستان، ایران، مصر، عراق ، اور ترکی اسلام کو خیر باد کہہ بھی دیں تو پھر بھی وہ افغانی ، ایرانی ، مصری، عراقی اور تُرک ہی رہتے ہیں، لیکن ہم اِسلام کے نام سے راہِ فرار اختیار کریں تو پاکستان کا اپنا الگ کوئی وجود قائم نہیںرہتا“ (”شہاب نامہ“ اَز قدرتُ اللّٰہ شہابؒ)
پاکستان کے وجود سے اِسلامی تشخص کا لباس اُتار دیا جائے تو یہ ملک بھانت بھانت کی نسلوں کا ایک ایسا ہجوم بن کررہ جاتاہے ‘ جسے کچھ سیاسی اور استحصالی مجبوریوںنے جکڑ باندھ دیاہو!! درحقیقت اِس اَنبوہِ بے مایہ کو گنجِ گراں مایہ بنانے کی ایک ہی ترکیب ہے .... اور وہ ترکیب ِ خاص‘یہ ہے کہ ایک کلمے کے سائے تلے ہم سب خود کوذہنی اورقلبی طور پر قوم ِ رسول ِ ہاشمیﷺ قرار دیں.... اور اِ س اقرار کی عملی تصدیق بھی کریں۔ کسی بھی قسم کا نسلی، لسانی، علاقائی، سیاسی اور صوبائی تعصب ‘ اس اقرار کی نفی میںشامل ہے۔کلمہ ¿ توحید عبارت ہے ‘ پہلے نفی سے ‘ پھر اقرار سے!!خود کی نفی اورخدائے واحد کا اقرار!!
ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ
درجنوں قومیتوں پر مشتمل خطے میں آباد کلمہ گو ایک قوم بن سکتے ہیں ‘ اگر انہیں ایک کلمہ ¿ وحدت کی طرف راغب کر لیا جائے ۔ کلمہ تو ایک ہے ‘ قوم ایک کیوں نہیں ؟ .... دراصل کلمے کی تشریح وحدت ِکردار سے محروم لوگ کر رہے ہیں۔وحدت ِ فکر سے عاری مبلغ ایک طرف کلمہ¿ وحدت کی ترجمانی کرنے سے قاصرہے اور دوسری طرف قوم کے اِجتماعی شعور اور ذوق کو وحدت کی خوشبو سے آشناکروانے کی صلاحیت سے یکسر محروم!! درحقیقت یہ قوموں کی امامت کرنے والا کوئی امام ہوتاہے جو بکھرے ہوئے دانوں کو ایک تسبیح میں اکٹھا کر لیتاہے .... دانہ دانہ ....اور پھر اُن سب کا شمار رکھتاہے ۔
ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ
قومیں طرزِ فکر سے بنتی ہیں۔ لباس اور رسوم ورواج سے نہیں۔ یہ طرزِ فکر ہے ‘ جو قوموں کو علیحدہ تشخص دیتا ہے۔ یہاںمشرق و مغرب کی تخصیص نہیں ‘ بلکہ یہ مادّی اور رُوحانی طرزِ فکر ہے جو قوموں کو الگ الگ پہچان دیتاہے۔ متفرق طرزِ فکر رکھنے والے ایک گھر میں رہتے ہوئے ‘ایک دوسرے سے اجنبی رہتے ہیں۔ ایک ملک میں رہنے والے اگر ایک طرزِ فکر نہ اپنائیں تو ہم وطن کیسے کہلائیں !!
 ”تہذیبوں کے تصادم “ کے تصور نے دیگرحقائق کے علاوہ یہ بھی واضح کر دیا کہ اب مغرب بھی دوقومی نظریے کا قائل ہونے کو ہے .... کہ زبان رنگ اور نسل نہیں ‘ بلکہ تہذیب قوموں کوایک دوسرے سے جدا کرتی ہے۔ تہذیب .... صدیوں کے طرزِ فکر سے جنم لیتی ہے۔ہمارا طرزِ فکر کلمہ¿ طیبہ پر مبنی ہے۔پاکیزگی نہ سہی‘ پاکیزگی کی تمنا تو ہمارے طرزِ فکر کاحصہ ہے۔پاکستان .... پاکیزگی کی تمنا رکھنے والوں کے ایک اجتماعی فیصلے کا نتیجہ ہے۔ پاکستان برّ صغیر میں ملت ِاسلامیہ کا ایک متفقہ اجتہاد ہے....اور اصول ِاجتہاد میں یہ شامل ہے کہ جس اَمر پر ایک مرتبہ اجتہاد ہوچکا ہو‘ اُس پر دوبارہ نہیں ہوتا۔
پاکستان ایک رُوحانی راز ہے.... اور یہ راز بھی اپنے انکشاف کیلئے بیدار مغز اور بیداررُوح انسانوں کامنتظرہوتا ہے۔مادّی اور جدلیاتی فکرمیںمحبوس ذہنوں کی مجبوری ہے کہ وہ پاکستان کوکبھی انگریز کی سازش کاکرشمہ جانیں اورکبھی کانگرس کی ہٹ دھرمی کا نتیجہ سمجھیں....اور کچھ بن نہ پڑے تو قائدِ اعظمؒ کی جلد بازی کا شاخسانہ قرار دیں۔ اپنے مشاہیر کی دانائی اور فہم و فراست کو غیر کی نگاہ سے دیکھناذہنی طورپر مفلس ہونے کی نشانی ہے۔ ایک قوم کا ہیرو ‘اُس کی دشمن قوم کا وِلن ہوتاہے۔ ایسے میں مستعار لی گئی نظر سے کیا دکھائی دے گا؟دراصل غلام کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ اُس کا طرزِ فکر بھی اُس کاآقامتعین کرتا ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ غلام جب اپنے آقا کے ذہن سے سوچتاہے تو رب ِموسٰی ؑ اور ہارون ؑپر ایمان لانے کے بعدبہت جلد سامری کی مُرلی پر سر دُھننے لگتاہے۔
ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ
پاکستان کا قیام مشیت ِ خداوندی کا ایک جغرافیائی اظہار ہے۔ اسلام ایک حقیقت ہے تو پاکستان اس حقیقت سے جڑی ہوئی وہ حقیقت ہے جس کااظہار ہجرت ِ مدینہ سے تیرہ سوچھیاسٹھ (۱۳۶۶ھ)برس بعد ہوا۔
جناب اشفاق احمدؒ جیسے صالحین ِ اُمت نے پاکستان کو ناقہ¿ ثمود قرار دیا ہے۔ جس نے اسے اپاہج کرناچاہا ‘ اُ س نے اپنی نسلوں پر قہر خداوندی کو دعوت دی۔
جس نے محبوب وطن کی ہے اُڑائی مٹی
 واصفؒ اُس شخص کی ہو ‘ ساری کمائی مٹی
اہل اللہ کی نظر میں پاکستان شعائراللہ میں شمار ہوتاہے۔ پاکستان کی توہین شعائر اللہ کی توہین ہے اور پاکستان کا احترام شعائراللہ کااحترام ہے۔ ایک محفل میں حضرت واصف علی واصفؒ سے سوال کیا گیا کہ اسلام تو ایک آفاقی دین ہے ‘ زبان، رنگ، نسل اور خطے کی حدود وقیود سے آزاد پیغام ہے اور پاکستان ایک جغرافیائی خطہ ہے، آپ پاکستان کو اسلام کے ساتھ اور اسلام کو پاکستان کے ساتھ کیسے لازم وملزوم بیان کرتے ہیں؟ آفرین ہے‘ اُ س سرچشمہ¿ فہم وفراست پر .... وہ ”سلونی سلونی“کا جلترنگ یوں گویا ہواکہ نکتہ در نکتہ منکشف ہونے لگا.... فرمایا....”جب کسی مادّی شئے کو ایک روحانی نسبت دے دی جاتی ہے تو وہ شعائر کادرجہ اختیار کرلیتی ہے ، جیسے ایک قطعہ زمین کو جب مسجد کے نام سے منسوب کردیا جائے تو وہ واجب الاحترام قرار پاتاہے ‘ اب اس قطعہ ¿ زمین کا احترام عین مسجد کا احترام ہے ۔ اسی طرح مسلمانانِ ہند نے پاکستان کی صورت میںدین ِ اسلام کے نام پر ایک جغرافیائی خطہ حاصل کیا ہے، اب یہ خطہ شعائرِاسلام میں داخل ہے۔ جس نے اِس ملک کی خدمت کی اُس نے اسلام کی خدمت کی“۔

No comments:

Post a Comment