گذشتہ چار سالوں کے دوران ایف 16 اور جے ایف 17 تھنڈر جنگی طیارے دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں اہم ہتھیار تھے لیکن امریکہ نے اردن کو منع کیا کہ پاکستان کو پرانے ایف 16 طیارے فراہم نہ کیے جائیں۔
دراصل امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے لیے رکاوٹ ڈالی۔
امریکی وزیر دفاع کے بیان کے تناظر میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں خواجہ آصف نے کسی کا نام لیے بغیر کہا ‘جب ہمیں کوئی کہتا ہے کہ یہ آخری موقع ہے، تو یہ ہمیں قابل قبول نہیں،آخری موقع پہلا موقع یا دوسرا موقع، بولنے دیں انھیں، اگر وہ ہمارے ساتھ اس طرح بات کریں گے تو یہ ہمارے لیے قابلِ قبول نہیں۔‘خواجہ آصف کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغان پناہ گزینوں کی موجودگی سے سرحد پار ایسے دہشت گردوں کو پناہ گزین کیمپوں تک رسائی مل سکتی ہے جنھیں حقانی یا دیگر گروپوں کے نام سے جانا جاتا ہے۔
پاکستانی وزیر خارجہ کے مطابق ’اب یہ وقت ہے کہ افغان پناہ گزین واپس جائیں اور یہ امریکہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کو واپس ان کے شہروں میں بسائے کیونکہ امریکہ کی جنگ کی وجہ سے وہ پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے۔ایک اور سوال کے جواب میں خواجہ آصف نے تسلیم کیا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کشیدگی کا شکار ہیں ‘جہاں تک امریکہ کا سوال ہے تو ہم اس بات تو تسلیم کرتے ہیں کہ تعلقات میں مسائل ہیں اور ہم انھیں حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم میں اعتماد کا فقدان ہے جسے دور کرنے کی کوشش ہے۔‘
گذشتہ روز انڈین فضائیہ کے سربراہ کے بیان پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ اگر پاکستان کی جوہری تنصیبات کو سرجیکل سٹرائیک کے ذریعے نشانہ بنایا گیا تو ‘کوئی ہم سے جواب نہ دینے کی اُمید نہ رکھے۔
حقانی نیٹ ورک اور حافظ سیعد کو بوجھ قرار دینے کے بیان پر قائم رہتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ‘ہم اس بوجھ سے ایک رات میں پیچھا نہیں چھڑا سکتے کیونکہ وہ یہاں بہت عرصے سے ہیں اور ہمیں ان سے یہ کہنے کے لیے وقت درکار ہے کہ وہ اپنا بوریا بستر سمیٹ لیں۔
خواجہ آصف نے یہ بھی تسلیم کیا کہ 2014 تک ’پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف اپنی پوزیشن میں نرمی کا مظاہرہ کیا کیونکہ اسے امریکہ پر یقین نہیں تھا کہ وہ افغان جنگ جیتنے کے بعد کیا کرے گا لیکن 2014 کے بعد پاکستان نے دہشت گردوں کا خاتمہ کیا اور انھیں جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔‘
پاکستانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ انھوں نے گذشتہ ایک ماہ کے دوران مشاہدہ کیا ہے کہ ‘امریکہ صرف اور صرف پاکستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کے الزام پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے، یہ وہ چیز ہے جو خود امریکہ کو افغانستان میں حاصل نہیں ہو سکی۔
انھوں نے کہا کہ اگر کچھ وقت کے لیے تسلیم کر لیں کہ الزام درست ہے اور پاکستان میں دہشتگردوں کے ٹھکانے ہیں تو پھر وہ کون لوگ ہیں جو منشیات کی تجارت میں ملوث ہیں، کابل میں کرپشن میں ملوث ہیں، طالبان کو ہتھیار بیچ رہے ہیں، علاقے دہشت گروں کے ہاتھوں گنوا رہے ہیں اور شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کو افغانستان میں لا رہے ہیں؟انھوں نے امریکہ سے مطالبہ کیا کہ وہ پاکستان پر الزام تراشی نہ کرے کیونکہ یہ قابل قبول نہیں۔
No comments:
Post a Comment