امریکا ٢٠١٤ میں ہی افغانستان میں ہارگیا -مکمل طور پر اس کا فیصلہ وقت آنے پر ہوگا -لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا کے افغانستان کے انخلا کے بعد نہ صرف خطے میں بلکہ دنیا کے دیگر اہم حصوں خصوصا مشرق واسطہ اور افریقہ میں اہم تبدیلیاں رونما ہونگے -اس سارے منظر نامے میں پاکستان کی تزویراتی حثیت انتہائی اہم ہے-ہم پہلے بھی اس بات کا تذکرہ کر چکے ہیں دنیا میں بڑی تبدیلیوں کے لیے بڑی جنگیں نا گزیر رہی ہیں-جدید تاریخ میں اگر پہلی جنگ عظیم کا ماجرا دیکھا جائے تو ہمیں معلوم ہو گا کہ ١٩١٤ سے پہلے دنیا کا جغرافیہ ،عالمی قوتوں کے محور اور سیاسی اور اقتصادی مفادات مختلف انداز میں تھے لیکن جنگ عظم اول کے بعد ہی دنیا کا جغرافیہ بدل جاتا ہے اس وقت کی عالمی قوتیں تاریخ کا حصہ بنتی ہیں اور ان کی جگہ نئی عالمی قوتیں جگہ بناتی ہیں-دنیا کے سیاسی ،معاشی اور معاشرتی محور و مرکز ہی تبدیل ہو جاتے ہیں-یہ سب کچھ ایک بڑی جنگ کی وجہ سے ہوا -اس کے بعد ہم دوسری عالمی جنگ کا نظارہ کرتے ہیں جو تقریبا پہلی جنگ کے نصف صدی بعد سامنے آتی ہے-١٩٤٠ سے پہلے کی دنیا کچھ اور ہے،جغرافیہ کچھ اور ہے-طاقت کے محور کچھ اور ہیں -لیکن ١٩٤٦ کے بعد جب جنگ عظیم دوم اپنے اختتام کو پہنچی دنیا کا جغرافیہ ہی تبدیل ہو گیا --نئے نئے ملک معرض وجود میں آے-طاقت کے محور تبدیل ہو گے-دشمن دوست اور دوست دشمن بن گے-استعاریت نے اپنی پرانی شکل ترک کی اور نئی شکل کے ساتھ دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا،محکوم قوموں کو آزادی کے نام پر ایک بڑا میدان کھیلنے کو دے دیا گیا اور پرانے عمرانی فلسفے کی جگہ نئے عمرانی فلسفے کو متعارف کرا دیا گیا -
ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ
ہمیں اس بات کو ذھن میں رکھنا ہو گاکہ یہ دونوں بڑی عالمی جنگیں جنہوں نے جدید تاریخ کی شکل ہی تبدیل کر دی یورپ میں لڑی گیں-اس کے نتیجے میں یورپ کے معاشی اور معاشرتی فلسفے
کو تبدیل کیا گیا جبکہ افریقہ اشیا اور جنوب مشرق ایشیا میں تبدیلیوں کا عمل زیادہ جغرافیائی رہا-پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کی طرح ٹھیک نصف صدی کے بعد ایک تیسری عالمی جنگ شروع کی جاتی ہے یعنی نائن الیون کا واقعہ جس کی ابتدا میں کہا جاتا ہے اور جس کے بارے میں امریکی عوام بھی دورائے رکھتے ہیں یہ جنگ منتخب اہداف اور ممالک کے لیے شروع کی گئی-ان کے اہداف افغانستان کو زیر کرکے اسے واسطی اشیا اور قزدین کے معدنی علاقے تک رسائی کا ذریعہ بنایا جائے -دوسرا اسی افغانستان میں بیٹھ کر روس اور چین کو جغرافیائی طور پر عالمی سرحدوں تک محدود رکھا جائے اور تیسرا اسی افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں ایسے حالات پیدا کر دیے جایئں کہ اس کا جوہری اثاثہ عالمی سلامتی کے نام پر یا تو یہاں سے منتقل کر دیا جائے یا اسے تلف کر دیا جائے -افغانستان کے بعد عراق کو اس لیے منتخب کیا گیا تھا کہ شمالی عراق کردستان سے متصل ہے-ایک طرف تیل کی دولت پر براہ راست تصرف حاصل کیا جائے اس کے بعد اسی عراق کو دیگر عرب ممالک میں انتشار کے لیے استعمال کیا جائے -اس کے علاوہ کردستان جو چار علاقائی ممالک یعنی ایران ،عراق ،شام اور ترکی کے درمیان منقسم ہے اسے آزاد ریاست بنا کر اسرائیل اور روس کے درمیان ایک سد سکندری بنا دی جائے تاکہ جس وقت اسرائیل اپنی عالمی دجالی سادات کے قیام کے لیے پہلے عربوں کے تیل پر قبضہ جما کر دنیا کو معاشی طور پر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرے تو اسے روسی عسکری ردعمل سے بچایا جاسکے کیونکہ اسرائیل کے اس براہ راست عمل سے سب سے زیادہ معاشی طور پر خطرہ روس چین جاپان اور برطانیہ کو چھوڑ کر باقی یورپ کو ہو گا اور روس اسرائیل کے اس اقدام کے سامنے خاموش نہیں بیٹھے گا،یہی وجہ ہے کہ روس ان آنے والے حالات کا ادراک کرکے کسی طور بھی شام سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہے
ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ
دوسری جانب افغانستان کے حالات نے بھارت کو بری طرح مایوسی میں دھکیل دیا ہے اور اب وہ اپنی توجہ جنوب مشرقی ایشیا کی جانب مرکوز کر رہا ہے جہاں وہ چین کے لیے ایک بڑا چیلنج بن سکے اس سلسلے میں جہاں تک پاکستان کی صورتحال کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں عالمی صیہونی قوتیں اس بات کا ادراک کر چکی ہیں
کہ آنے والے دور میں پاکستان کا بحری کردار نہ صرف اس خطے میں بلکہ اس سے آگے تک بہت موثر ہو جائے گا-اس لیے اس قسم کی افواہیں بھی گردش کرتی ہیں کہ پاکستان اپنی ایٹمی آبدوز تیار کر رہا ہے-اس کے بعد اگلا مرحلہ طیارہ بردار جہاز کی تیاری ہے- پاک بحریہ پر ہونے والے دشمنوں اور ان کے مقامی ایجنٹوں کے حملوں کا سبب سمجھ میں آتا ہے-کراچی کے حالات خراب کرنے کی وجہ بھی سمجھ میں آتی ہے- ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کے نام پر جو کھیل بڑی طاقتیں یہاں کے سیاسی اور لسانی مافیاز کے ذریعےکھیل رہی تہے وہ بڑی حد تک سمجھ میں آتا ہے-اگر خطے کے وہ ممالک جو پاکستان کو اپنے ہاں بحری اڈے بنانے کی اجازت دیں گے انھیں پاکستان کی جانب سے جوہری چھتری مہیا ہو جائے گئی-اور یوں بحرا ہند بحرا اشیا میں تبدیل ہو جائے گا اس سلسلے میں پاکستان کو چین اور مشرق واسطی اور افریقہ کے مسلم ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنا ہو گا-سعودی عرب ،ارب امارات،اومان اور یمن کے ساحلی علاقوں میں پاکستانی بحری اڈے اسے افریقہ تک آسانی کے ساتھ رسائی دلا سکتیں گے بلکہ جنوب کی جانب سری لنکا،مالدیپ اور جزائر کیمروس تک ان اڈوں کا قیام پاکستان کی بھری استعداد کو خطے کی ایک بڑی بحری قوت میں تبدیل کر دے گا-اس سے نہ صرف چین کے بحری مفادات کو تحفظ حاصل ہو گا-بلکہ گوادر جہاں پہلا ریفیولنگ کا سٹیشن قائم ہورہا ہے وہاں پاکستانی اور چینی بحریہ کے لیے خطے میں وہ کام دے گا جو امریکا اور برطانیہ کے لیے ڈیگوگار شیا کا اڈہ دیتا ہے اس صورتحال کو سمجھنے کی ضرورت ہے کیونکہ دینا اس وقت بڑی تبدیلیوں کے دہانے پر کھڑی ہے اور پاکستانی سیاستدان جمہوریت کے نام پر ایسا کھیل کھیلنے میں مشغول ہیں جو خطے میں رہنے والی قوم کے سیاستدانوں پر نہیں سجتا
No comments:
Post a Comment