Saturday, January 27, 2018

پاکستان کے 10 ممکنہ خفیہ  ترین ہتھیار جنہیں ابھی منظرِ عام پر نہیں لایا گیا

نمبر 1: بین البرِ آعظمی مزائل، تیمور.      ایک اند ازے کے مطابق پاکستان تیمور نامی بین البرِ آعظمی مزائل یا بنا چکا ہے  جو 7000 کلومیٹر رینج کا حامل ہے۔ اس ممکنہ ہتھیار امریکہ سخت پریشان ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکی صدر باراک اوبامہ نے اپنے دورِ اقتدار کے آخر میں پاکستان کو امداد کے عوض اپنے مزائلوں کی رینج کو کم کرنے کے سلسلے میں بات کی جسے سابق وزیرِ آعظم نواز شریف نے  جنرل راحیل شریف کے خوف سے ٹھکرا دیا۔ امریکہ کی خواہش تھی کہ  امداد (پیسوں) کے عوض پاکستانی مزائلوں کی رینج اس قدر کم کر دی جائے کہ مزائل اسرائیل تک بھی نہ پہنچ پائیں اور اسی معاہدے کی بدولت پاکستان کا بین البرِ آعظمی مزائل پروگرام بھی ختم ہو جاتا۔          پاکستان کا دوسرے نمبر پر خفیہ ترین ہتھیار دنیا کے سب سے چھوٹے ایٹمی ہتھیار کو تصّور کیا جاتا ہے۔ 2009ء میں جنرل پرویز مشرف نے ایک اجلاس کے دوران امریکی عہدیداروں کے سامنے حیرت انگیز انکشاف کیا کہ پاکستان کریٹیکل لمٹ سے کم مقدا ر میں پلوٹونیم کو استعمال کرتے ہوئے ایٹمی ہتھیار بنانے میں کامیاب ہو گیا ہے جس پر امریکی عہدیدار سخت پریشانی میں مبتلا ہو گئے۔ گو کہ پرویز مشرف نے امریکیوں کے سامنے  حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے  انکشاف تو کر دیا لیکن پاک فوج نے باقاعدہ طور پر کبھی  ایسےخفیہ ہتھیار کے ہونے کی تصدیق نہیں کی اور اس راز کو خفیہ رکھا جا رہا ہے۔          نمبر3:  کمرشل طیاروں میں ایٹم بم گرانے کے لئے ترمیم.      انتہائی محتاط اندازے کے مطابق پاکستان نے ممکنہ طور پر چند کمرشل طیاروں میں ایسی تبدیلیاں کی ہیں یا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جن کی بدولت ضرورت پڑنے پر ان کے ذریعے کسی بھی دشمن ملک پر ہیروشیما اور ناگاساقی طرز کا ایٹمی حملہ کیا جا سکتا ہے اور طیاروں میں کی گئی تبدیلی کا ڈیزائن اس قدر مختصر ہے کہ کوئی طیارہ ساز کمپنی اس معمولی تبدیلی کے پیچھے چھپا راز نہ سمجھ پائیں۔ بظاہر یہ خبر من گھڑت اور دھوکے پر مبنی لگتی ہے لیکن تکنیکی طور پر ایسا  بلکل ممکن ہے۔    نمبر4: ہائیڈروجن بم.     ایک منظّم اندازے کے مطابق پاکستان نے 2012ء میں ہائیڈروجن بم تیار کر لیا تھا۔ اگرچہ ابھی تک ہائیڈروجن بم سے متعلق فوج کی جانب سے کوئی بیان نہیں آیا تو دشمن کے دلوں میں وحشت پیدا کرنے والا یہ ہتھیار  خفیہ ہتھیاروں کی ہماری لسٹ میں چوتھے نمبر پر آتا ہے۔ بعض امریکی  ماہرین کے مطابق  3 ستمبر 2017ء کو شمالی کوریا نے جس ہائیڈروجن بم کا تجربہ کیا اس کی ٹیکنالوجی پاکستان نے شمالی کوریا کو فروخت کی ہے۔  نمبر5:سٹیلتھ نیوکلئیر ٹارپیڈو. ٹارپیڈو ایسا ہتھیار ہوتا ہے جو زیرِ سمندر آبدوز کی طرح سفر کر کے سمندر میں موجود کسی بحری بیڑے یا آبدوز کو اپنی تباہی کا نشانہ بناتا ہے۔ ممکنہ طور پر پاکستان نے عام ٹارپیڈو کی طرح ایٹم بم سے لیس، ایٹمی ٹارپیڈو تیار کر لیا ہے جسے خاموشی سے دشمن کی وسیع و عریض بندرگاہ یا سمندر میں موجو د بڑے پیمانے پر دشمن کے جنگی بیڑوں کو ایک ساتھ ٹھکانے لگانے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ سویت یونین نے 1955ء میں نیوکلئیر ٹارپیڈو کا کامیاب تجربہ کیا تھا جبکہ پاکستان کے لئے اس قسم کا ہتھیار تیار کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔      نمبر6: سولر ڈرون2015ء میں ایک خبر اخبارات کی زینت بنی جس میں میں بتایا گیا کہ اسلام آباد میں موجود نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے طالب علموں نے سولر ڈرون تیار کیا ہے  اور یہ اطلاعات بھی ملی کہ پاکستان ائیروناٹیکل کمپلیکس کے زیرِ نگرانی سولر ڈرون پراجکٹ پر باقاعدہ کام شروع کر دیا گیا ہے۔ بعد ازاں اس خبر کو منظر نامے سے غائب کر دیا گیا اور گمان کیا جاتا ہے کہ اس اہم پراجکٹ کو اب خفیہ طور پر سرانجام دیا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ سولر ڈرونز مستقبل قریب میں سیٹلائٹس کی جگہ لے لیں گے کیونکہ سولر ڈرونز  کئی ماہ کے طویل عرصے کے لئے  انتہائی  بلندی پر مسلسل اور خودکار طریقے سے پرواز کر سکتے ہیں  اور دشمن کے علاقوں سے متعلق اہم مطلوبہ معلومات پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔نمبر7: الیکٹرو میگنیٹک پَلّس ہتھیار.   الیکٹرو میگنیٹک پَلّس ویپن سسٹم ایسے ہتھیار کو کہا جاتا ہے جو نہایت خاموشی سے دشمن کے  کسی مخصوص علاقے میں موجود تمام تر مواسلاتی  نظام کو ایک صرف ایک سیکنڈ کے مختصر ترین وقت میں درہم برہم کر سکتا ہے۔ مطلب یہ ہتھیار نہایت خاموشی سے دشمن کےبجلی پر چلنے والے تمام تر نظام کو مفلوج کر سکتا ہے جس میں دشمن کے مزائل سسٹم، اینٹی ائیرکرافٹ اور اینٹی بیلسٹک مزائل سسٹم اور دیگر سینکڑوں نظام شامل ہیں۔   کچھ عرصہ پہلے اس سے متعلق خبریں بھی میڈیا کی زینت بنی جن میں بتایا گیا کہ پاکستانی سٹوڈنٹس اس پیچیدہ اور مشکل ترین ٹیکنالوجی کو ایجاد کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں جبکہ بعد ازاں اس خبر کو بھی منظر نامے سے غائب کر دیا گیا۔ اس سے متعلق بھی اب یہی گمان ہے کہ اس پراجکٹ پر بھی خفیہ طریقے سے کام جاری ہے۔    نمبر8: لیزر ہتھیارپاکستان  آرمی نے 25 اپریل 2012ء کو مظفر گھڑھ میں منعقد فوجی جنگی مشقوں میں لیزر ٹیکنالوجی کی مدد سے دشمن کے ٹینکوں کے انجن بند کرنے کا عملی مظاہرہ کیا جبکہ جنرل اشفاق پرویز کیانی موقع پر موجود تھے۔ لیکن اب ممکنہ طور پر  پاکستان نے اس ٹیکنالوجی میں خاطر خواہ  کامیابیاں سمیٹ لی ہیں اور مختلف اقسام کے لیزر ہتھیار تیار کر لئے گئے ہیں۔ ان ہتھیاروں کو ابھی تک خفیہ رکھا گیا ہے۔نمبر9: Heat Signaturesکو چھپانے والا نیٹ.    یہ بھی خبر ہے کہ پاکستانی سائنسدانوں اور انجینئرزنے اپنی  ان تھک کاوشوں سے ایک ایسا جال تخلیق کیا ہے جسے اگر کسی قسم کے اسلحہ،ایٹم بم و دیگر ایٹمی واد یا کسی مزائل پر ڈال دیا جائے تو ground penetration کی صلاحیت رکھنے والے جدید ترین امریکی، اسرائیلی اور روسی ریڈارز اور سیٹلائٹس کی نظروں سے ان چیزوں کو محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ سالوں میں بھارت نے اسرائیل سے ایسے ڈرون اور دیگر سازوسامان خفیہ طریقے سے حاصل کیا ہے جو زیرِ زمین بنکرز میں موجود اسلحہ اور دیگر اشیاء کی نشاندہی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن پاکستان کے پاس موجود اس ممکنہ ٹیکنالوجی سے یہ تمام تر جدید ترین ٹیکنالوجیز دشمن کے کسی کام نہیں آئیں گی۔      نمبر10: مضبوط ترین آرمر2003ء میں جب آپریشن عراقی فریڈم کے نام پر امریکی  M-1 Abrahamٹینک عراق کی گلیوں میں دندنانے اور تباہی پھیلانے لگے تو عراق بھر میں پھیلے مجاہدین سرتوڑ کوشش کے باوجود ان امریکی ٹینکوں کو موثر حملوں کے باوجود بھی تباہ نہیں کر پائےکیونکہ ان ٹینکوں کے اوپر اور ارد گرد ایسی مضبوط ترین دھات کو لگایا گیا تھا جس پر ہر طرح کا ہتھیار بے اثر ثابت ہوا۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ وہ دھات دراصل یورینیم کے مرکب سے بنی دنیا کی مضبوط ترین اور خفیہ رکھی جانے والی دھات ہے۔ اطلاعات ہیں کہ پاکستان آرمی کے زیرِ انتظام خفیہ لیبارٹریز اور ریسرچ سینٹرز میں اس دھات کو کامیابی سے تخلیق کر لیا گیا ہے جبکہ ایک اندازے کے مطابق دنیا کی سخت ترین دھات ہونے کی وجہ سے اس  دھات کے ٹکڑوں کا استعمال پاکستان کے کئی مزائلوں کے نچلے حصے یعنی راکٹ بوسٹر کے تھرسٹ کو کنٹرول کرنے کے لئے بھی استعمال کیا گیا ہے۔  اس دھات کی تخلیق اور اس کے استعمالات کو خفیہ رکھا گیا ہے۔

No comments:

Post a Comment