اگر تم ایٹمی پلانٹ کے ارادہ سے بازنہ آئے تو ہم تمہیں عبرتناک مثال بنادیںگے،،یہ وہ الفاظ ہیں جو یہودی نزادامریکی وزیرخاجہ ہنری کسنجرنے پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو سے کہے تھے یہ الفاظ صرف ذالفقار علی بھٹو کیلئے نہیں تھے بلکہ پاکستان کیلئے بھی تھے۔یہ واقعہ 9!اگست1976ء کا ہے جب ہنری کسنجر پاکستان کے دورے پر تھیں۔ان الفاظ کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ پاکستان نے فرانس سے ایٹمی ری پراسیسنگ پلانٹ کا معاہدہ کیا تھا جبکہ امریکہ ،،پاکستان اور فرانس،، دونوںپر اس معاہدے کی منسوخی کے لئے دباؤ ڈال رہا تھا۔
-----------------------
ویسے تو پاکستان اپنا جوہری پروگرام1956ء میں ہی شروع کرچکا تھا۔لیکن ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کے لئے سنجیدہ کوششوں کا آغاز1972ء میں ہوا۔ذوالفقارعلی بھٹو کی بھارت کے ایٹمی پروگرام پر گہری نظر تھی۔1972ء میں ذوالفقارعلی بھٹو نے پاکستانی سائنسدانوں اورانجیئنروں کے ساتھ ملتان میں ایک خفیہ میٹنگ کی۔اس میٹنگ میں ذوالفقارعلی بھٹونے سائنسدانوں کو دفاعی مقاصد کے لئے ایٹمی صلاحیت کے حصول کا کام سپردکیا اور ان سے استفسارکیا کہ وہ کب تک پاکستان کے لئے ایٹمی ہتھیاربنانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ منیراحمد خان کو اس پروگرام کا انچارج بنایا گیا اور اس ساری کوششوں کو،،پروجیکٹ706،، کا نام دیا گیا۔یہ ایسے ہی تھا جیسے امریکہ نے اپنے خفیہ ایٹمی پروگرام کا نام ،،من ہیٹن پروجیکٹ،،رکھا تھا۔
----------------------------
پاکستان کے خدشات اُس وقت درست ثابت ہوئے جب بھارت نے 1974ء میں ،،مسکراتا بدھا،، کے نام سے ایٹمی دھماکہ کردیا۔پاکستان جو 1971ء کی جنگ میں پہلے ہی ہزیمت اٹھا چکا تھا۔بھارتی ایٹمی دھماکے سے مزیددباؤ میں آگیا۔اب پاکستان کے پاس صرف دو ہی راستے تھے یاتو وہ ہمیشہ کے لئے بھارت کی بلادستی قبول کرلیتا یادوسراراستہ یہ تھاکہ پاکستان خود بھی ایٹمی طاقت بن کر اس خطے میں طاقت کا توازن بحال کرتا۔پاکستان نے دوسرا راستہ چنا،لیکن یہ بات طے تھی کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت نہ صرف بھارت کو بلکہ پورے مغرب کو ناقابل قبول تھی۔اس پروجیکٹ کے آغاز سے ہی سے اس کے خلاف سازشیں شروع ہوگئیں جو آج تک کسی نہ کسی صورت میں جاری ہیں۔1974ء میں پاکستان نے فرانس سے ایٹمی ری پروسیسنگ پرانٹ کی خریداری کا معاہدہ کیا۔یہ معاہدہ بین الاقوامی اصولوں کے مطابق تھا لیکن پھربھی امریکہ نے اس معاہدے کی شدید مخالفت شروع کردی اور پھر ہنری کسنجرکی ذالفقار علی بھٹو کو دی جانے والی دھمکی سامنے آئی جس پرعمل درآمد آج تک جاری ہے۔
-----------------------------
فرانس سے ایٹمی ری پروسیسنگ پلانٹ کا معاہدہ دراصل ذوالفقارعلی بھٹوکی ایک حکمت عملی تھی۔اس وجہ سے عالمی توجہ اس معاہدے کی طرف ہوگئی جب کہ اصل کام خفیہ طور پرکہوٹہ کے مقام پر1976ء میں شروع ہواجب اے کیو خان ہالینڈ سے یورینیم افزدگی کے لئے سینٹری فیوجزکے ڈیزائن اور ٹیکنالوجی لائے اور ان کی تنصیب کا کام شروع ہوا۔جوملک یورینیم کی 90فیصد تک افزدگی کی صلاحیت حاصل کرلے وہ ایٹمی ہتھیار بنانے کے بہت قریب پہنچ جاتا ہے۔اسی لئے یہ پروجیکٹ بہت اہمیت کا حامل تھا۔ان واقعات کے بعد امریکہ کی بھٹو کودی جانے والی دھمکی پر عملی جامہ پہنانے کا عمل شروع کردیاامریکہ کی بھٹوکے خلاف سازشوں کا ذکر انہوں نے راولپنڈی کے ایک مجمع عام میں امریکہ کا دھمکی آمیزخط لہرا کرکیا اور پھرجب1977ء میں پی این اے کی تحریک اپنے زوروں پر تھی تو انہوں نے قومی اسمبلی میں وہ مشہور زمانہ تقریر کی جس میں انہوں نے امریکہ کو ،،ہاتھی ،، کے نام سے پکارااورپاکستانی حکومت کے خلاف اس کے اقدامات کا ذکر کیا۔بھٹو کی خدشات درست ثابت ہوئے اور1977ء میں مارشل لگ گیا
------------------------------------
جنرل ضیاء الحق برسراقتدار آئے۔لیکن ایٹمی صلاحیت کا حصول پاکستانی ریاست کا قومی فیصلہ تھا اس لئے ضیاء الحق نے بھی اسے جاری رکھا۔یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر ضیاء الحق نے ایٹمی صلاحیت کے حصول کا پراجیکٹ جاری رکھنا تھا تو امریکہ کے کہنے پر اپنے ہی ملک کے وزیر اعظم کو پھانسی تک پہنچانے کی کیا ضرورت تھی؟پاکستان کا ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کا خواب تقریباً ناممکن تھامگر1979ء میں وقوع پذیرہونے والے ایک واقعہ نے پاکستان کو اس خواب کے پورا کرنے میں مدد دی۔یہ واقعہ افغانستان میں روسی فوجیوں کی آمد تھا۔روس کی افغانستان میں آمد سے امریکہ کو مجبوراً پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے کچھ عرصہ کے لئے صرف نظرکرکے پاکستان کا اتحادی بننا پڑا تاکہ روس کو شکست دی جاسکے۔لیکن اس کے باوجود پاکستانی نیوکلیرپروگرام کے خلاف بین الاقوامی سازشیں جاری رہیں لیکن یہ سازشیں اعلانیہ نہیں تھیں بلکہ خفیہ تھیں۔مغربی میڈیا میں پاکستان کے خلاف زبردست پروپیگنڈاکیا گیا۔ان کی خفیہ ایجنسیاں اس پروگرام کے خلاف کام کرتی رہیں۔پاکستان کے لئے احساس آلات اور مشینری کا حصول تقریباً ناممکن بنادیا گیا تھا۔اس کے باوجود پاکستان کیسے ایٹمی طاقت بنا یہ ایک لمبی کہانی ہے۔امریکہ نے ایٹمی تنصیبات پر حملہ تو نہیں کیا لیکن اسرائیل پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کی تباہی میں سنجیدگی سے سوچ رہاتھااورچونکہ اسرائیل کواس خطے میں امریکہ کانمائندہ کہا جاتا ہے اس لئے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ امریکہ بھی اس کے پیچھے تھا۔
----------------------------------------
ہنودویہود کے لئے پاکستان کی ایٹمی صلاحیت ناقابل قبول تھی۔1981ء میں عراق کے ایٹمی ریکٹرکو کامیابی سے تباہ کرنے کے بعد اسرائیل کی نظریں کہوٹہ پر تھیں۔کچھ عرصہ قبل شائع ہونے ایک رپورٹ میں اسرائیلی ارادوں کا تفصیل سے ذکر ہے۔یہ رپورٹ اخبار،،ایشین ایج،، کے دوصحافیوں نے تیارکی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق اندراگاندھی کا اسرائیل سے خفیہ معاہدہ ہوچکا تھا جس کا مقصد پاکستانی ایٹمی تنصیبات کی تباہی تھا۔اس سلسلے میں بھارت کے جام نگرکے ہوائی اڈے پر اسرائیلی جنگی جہازوں نے اڑکر پاکستان پر حملہ آور ہونا تھا۔ایک اور منصوبہ یہ تھا کہ اسرائیلی جنگی جہازاسرائیل سے اڑتے اور ان کو فضامیں ہی ایندھن دیاجاتا اورکہوٹہ پر بمباری کے بعد ان طیاروں نے بھارت کے جموں ہوائی اڈے پر اترناتھا۔اس کارووائی کو رات کے وقت عملی جامہ پہنایا جانا تھا۔ لیکن اسرائیلی یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ پاک فضائیہ پہلے سے ہی الرٹ تھی اور ان کے پلان سے واقف تھی۔پاکستان نے اسرائیل کو یہ پیغام دیا کہ پاکستان نہ عراق ہے نہ پاک فضائیہ عراقی فضائیہ ہے۔پاکستان نے ان حملوں کے جواب میں اسرائیل اور خاص طور پر بھارت کو سنگین نتائج کے دھمکی دی۔اس رپورٹ کے مطابق اندراگاندھی نے یہ منصوبہ اسرائیلی اور بھارتی فوجی ماہرین کے احتجاج کے باوجود ختم کردیا۔یوایس ائیریونیورسٹی کے شائع کردہ ،،میک نئیر،، دستاویزات میں بھی اس منصوبے کا ذکر ہے۔ریگن انتظامیہ نے بھی اس منصوبے پرمخالفت کی کیونکہ اس کے نتیجہ میں افغانستان میں اس کے مفادات خطرے میں پڑجانے تھے جوروس کے خلاف مزاحمت کی مددکررہا تھا
---------------------------------------------
۔ضیاء الحق کے دور میں ہی پاکستان نے ایٹمی صلاحیت حاصل کرلی تھی اور ایک کولڈایٹمی ٹیسٹ بھی کرچکا تھا۔افغان سوویت جنگ کے خاتمے کے بعد امریکہ نے پاکستان پر پھردباؤبڑھا دیااورپاکستان پر مختلف پابندیاں لگا دی۔1990ء میں اُس وقت کا امریکی سفیر رابرٹ اوکلے پاکستان میں اپنے اثرورسوخ کی وجہ سے وائسرے کہلاتا تھا۔اُس نے پاکستان سے جاتے جاتے یہ کہا کہ پاکستان ایٹمی پروگرام کے حوالے سے خطرے کی لکیرکوعبورکرچکا ہے۔
------------------------------
آخر کار1998ء میں پاکستان نے ایٹمی دھماکے کرکے دنیا کے سامنے اپنی صلاحیت ثابت کردی۔کارینگی فاؤنڈیشن کی ریسرچ کے مطابق پاکستان کے پاس 50سے60تک ایٹمی وارہیڈہیںاورپاکستان کا ایٹمی اور مزائل پروگرام بھارت کے مقابلہ بہت ترقی یافتہ ہے۔آج کل پھر امریکہ میں موجود بھارتی اور اسرائیلی لابیاں میڈیا میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں مہم چلائے ہوئے ہیں اور یہ تاثردینے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہتھیارطالبان یا انتہاء پسندوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔پرویزمشرف کے دور میں پاکستان نے نیشنل کمانڈاتھارٹی قائم کی ، جس کا مقصد ایٹمی ہتھیاروں کی فول پروف سیکورٹی اور ان کوچلانے کا ایک ایسا جدید نظام بنانا تھا جس میں غلطی کی کوئی گنجائش نہ ہو۔مشہور امریکی صحافی سیمورہرش کی رپورٹ کافی اہم ہے جس میں کہا گیا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کی ایٹمی ہتھیاروںپ رقبضے کے لئے ایک خصوصی ٹاسک فورس قائم کی ہے جس میں امریکہ کی سپیشل سروسزکے فوجی شامل ہیں۔یہ فوجی اب تک کئی مشقیں کرچکے ہیں۔بعض ماہرین کے مطابق افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی موجودگی صرف طالبان اور القاعدہ کی بیخ کنی کے لئے نہیں ہے بلکہ اس کے بہت سارے سٹرٹیجک مقاصدہیں جن میں سے ایک اہم مقصدپاکستان کو ایٹمی صلاحیت سے محروم کرناہے۔تاہم ان سب خطروں سے پاکستان بخوبی آگاہ ہے اور اپنے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کے لئے ہمہ وقت تیار ہے۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ 1976ء کے بعد امریکہ کی حکومت کئی بار تبدیل ہوئی مگر اُن کے مِشن وہی رہے اور ہر آنے والی نئی حکومت سابقہ مشن کو پورا کرنے پر عمل پیرا ہوتی رہی۔
#PakSoldier HAFEEZ
No comments:
Post a Comment