Thursday, September 21, 2017

آج سے 52 سال پہلے کی کہانی


8/9 اگست 1965 کی رات، میں SSG کی غازی کمپنی کی ایک ٹیم کے ساتھ IHK میں دراس اور کارگل کے درمیان دریا دراس پر تاشگم پل کو اڑانے گیا. میرے ساتھ 14 گمنام  تهے. ہم 6 اگست کو یہ پل اڑانے نکلے تهے اور خیال یہ تھا کہ کنٹرول لائن سے 15 کلومیٹر دور ٹارگٹ پر اپنا کام مکمل کر کے ہم اگلی صبح 10 بجے تک اپنے ہائیڈ آوٹ میں واپس پہنچ جائیں گے. مگر راستہ میں مختلف رکاوٹوں کی وجہ سے ہم دو روز لیٹ ہو گئے. ایک رات پہلے تو ہم پہاڑ سے نیچے اترتے وقت پتھروں کے گرنے سے شور سے بچنے کیلئے اتنے محتاط تهے کہ ہماری رفتار زیادہ ہی کم رہی اور پل سے ایک کلومیٹر دور تهے کہ سورج طلوع ہو گیا. دن کی روشنی میں پل تک بنا دیکهے جانے پہنچنا بیحد مشکل تها اور عین ممکن تها کہ دشمن ہمیں پل تک پہنچنے، پل کے ہر گارڈر پر بارود لگاتے اور پهر واپس لوٹتے ہوئے بہت نقصان پہنچاتا اور شاید ہم پل تباہ نہ کر سکتے. چنانچہ میں نے اپنی ریڈ کو اگلی رات یعنی آج کی رات کیلئے ملتوی کر دیا اور ہم واپس پہاڑ پر چڑھ گئے. دو روز سے بهوکے اور تھکاوٹ سے نڈهال جوانوں کے پاس کهانے کو کچھ نہ تھا. پہاڑ کے اوپر کچھ گهاس تهی جو ہم سب نے رغبت سے کهائ. دن میں ہمیں پل کو تفصیل سے دیکهنے کا خوب موقع ملا اور میں نے ہر گمنام انفرادی طور پر پل کے قریب اسکی جگہ سمجهائ اور اس کے فرائض بتائے. 8/9 اگست کی رات ہم تیزی سے اترے اور صبح 2:45 اسی جگہ پہنچ گئے جہاں پہلے روز 6 بجے پہنچے تهے. چونکہ کشمیر میں دو روز پہلے مجاہدین کے حملے شروع ہو چکے تھے دشمن کے چاک و چوبند اور مذید حملوں کیلئے تیار رہنے پر شک نہیں رہا تھا تو میں نے معمول کی تکنیک کی بجائے دشمن کے دستے کی طرح سڑک پر چلنے کی ترکیب اختیار کی اور 15 منٹ میں پل کے قریب پہنچ گیا. میں پل سے تقریباً 75 گز دور تھا جب پل پر کهڑے سنتری نے ہمیں چیلنج کیا اور بولا، "ہالٹ، کون ہے". اسپر میں دشمن کے افسر کے روپ میں دہاڑا " کون ہے کے بچے تمہیں چیلنج کرنا نہیں آتا؟ بلاو اپنے باپ کو". اتفاق سے وہ میرے رعبدار جواب سے گهبرا گیا اور جی سر کہتا ہوا نزدیک ہی ٹینٹ میں داخل ہوا. ٹینٹ میں ایک لالٹین ہلکی روشنی میں اس کا سایہ دکھا رہی تهی. وہ جهکا اور اپنے کمانڈر کو جگانے لگا. یہ چند سیکنڈ ہمارے لئے اپنی اپنی پوسٹ سنبھالنے کیلئے کافی تهے. پل کے نزدیک ایک ٹینٹ اور ایک پتھروں سے بنا بنکر تها. سڑک کے پار ہماری ہی طرف تین مزید ٹینٹ تهے جنمیں سڑک اور پل کی دیکھ بھال کیلئے انجینئرز رہتے تھے. یہ پل حسن ابدال سے پشاور کی طرف 8 کلومیٹر دور دریائے ہیرو پر بنے پرانے پل کی طرز کا تها. اسی ہیرو پل پر ہم نے کئ مرتبہ پریکٹس کی ہوئ تھی. اس لئے میرے لئے تاشگم برج کیلئے بارود کے چارجز بنانا مشکل نہ تھا. ہم نے پہاڑ سے دیکھ کر ہی اس پل کے لئے بارود کے چاجز تیار کر لئے تھے جو لگاتے وقت عین درست نکلے. میں نے بسم اللہ پڑھ کر ریڈ شروع کرنے کیلئے راکٹ لانچر سے پتهر کے بنکر کو نشانہ بنایا اور پهر اگلا ایک منٹ دشمن کے گرڈز اور انجینئرز کیلئے جہنمی منٹ تها. ہم نے دشمن کو اچانک حیران کر کے دبوچ لیا تها. ہماری دو مشین گنز اور 12 نیم خودکار رائفلیں دشمن کو خاموش کرا چکی تهیں. چنانچہ میں نے رنگین روشنی کا کارتوس پل کی لمبائ میں فائر کر کے اشارہ دیا کہ ہم پل پر بارود لگانے جا رہے ہیں اور ہمارے ساتھی پل پر سے اپنے ہتھیار ہٹا کر دوسری سمت میں گولی چلائیں. ہمیں چارجز پل پر لگانے اور انہیں آپس میں جوڑنے میں 9 منٹ لگے. اس دوران دشمن کا ایک سپاہی پل پر دوڑ کر دوسری طرف جاتا نظر آیا تو بارود لگانے والے ہم چاروں کی رائفلیں اسپر اٹهی مگر چاروں نے ایک ہی خیال سے اس پر گولی نہیں چلائ کہ ہمارا اصل ٹارگٹ پل ہے اور وہ غریب بیوی بچوں والا ہوگا. سب چاجز چیک کرنے کے بعد میں نے بارود کے فیتہ کو آگ لگانے کا حکم دیا اور پل کے رخ سبز رنگ کا کرتوس چلایا. اس کا مطلب تها کہ ٹهیک ڈیڑھ منٹ بعد پل دهماکے سے اڑے گا اور سب گمنام  بتائ ہوئ منتخب جگہ (RV ) پر پہنچ جائیں. ڈیڑھ منٹ میں 200 گز دور ہو کر ہم بارود کی تباہ کاری سے بچ جاتے. مگر حالات کی سنگینی اور وقت کی تیز روی میں ہم چار بارود لگانے والے بهول گئے تھے کہ دشمن نے ذمین سے ایک فٹ بلندی پر کانٹے دار تار کا جال بچھا رکها تها جو ہم نے پل کی طرف جاتے ہوئے محسوس کر لیا تها اور دریا میں ایک گز اندر جا کر پل تک پہنچے تهے. مگر واپسی پر جلدی میں سیدهے کانٹے دار تار کے جال میں ہماری شلواروں کے پائنچے ایسے اٹکے کہ ہمیں پل سے صرف 50 گز دور ذمین پر لیٹنا پڑا. کلمہ پڑها، اللہ سے خیرئیت کی دعا کی اور بارود کے پهٹنے کا انتظار کرنے لگے. بہرحال، بارود پهٹا اور 110 کلو بارود کا دھماکا پہاڑوں میں دیر تک گونجتا رہا. پل اوپر کی طرف اٹها اور شور کے ساتھ دریا میں لٹک گیا. اللہ پاک کے معجزہ سے ہم سب اٹهے اور دریا کے اندر والے پرانے راستہ سے سڑک پر پہنچ گئے. تهوڑی ہی دور آگے گئے تو ایک شخص تکلیف سے کراہتا ہوا چلا جا رہا تھا. بول نہیں سکتا تھا اور صرف ہوں ہوں کر کے کراہ رہا تھا. میں نے اسے اندھیرے میں پاوں سے اوپر کی طرف ٹٹولنا شروع کیا تو گردن میں میری انگلیاں اس کی جلد سے اندر چلی گئی. اسکے کالر سے جلے ہوئے کپڑے کی بو آ رہی تھی. میں سمجھ گیا کہ وہ لانس نائک غلام رسول تها جس نے جوش میں آ کر راکٹ لانچر فائر کرنے والے کے لانچر کی نالی سیدهی کرواتے ہوئے اپنی ناک لانچر کی بیرل کے سرے پر رکهی تهی اور میرے بسم اللہ پڑهتے ہی اسنے فائرر کے کندهے پر تهپکی لگا کر فائر کہا تها. فوج میں راکٹ لانچر کے پیچهے سیدهی لاین میں 25 گز دور رہنے کی ہدایت کی جاتی ہے مگر وہ جوشیلا جو ہم سب کی طرح زندگی میں پہلی دفعہ اصل دشمن کے خلاف اصل گولیوں سے لڑ رہا تھا، ایک لمحے کیلئے بهول گیا تھا کہ راکٹ لانچر کا بیک بلاسٹ اسے بری طرح متاثر کرے گا. اسے تیسرے درجے کے زخم آئے تهے. مگر اتنے شدید دهچکے اور گہرے زخموں کے باوجود اس نے اپنے حواس قائم رکهے اور رنگین روشنی دیکھ کر RV کی طرف چل پڑا. ہم نے اسے بغل سے سہارا دیا اور جلد ہی RV پر پہنچ گئے جہاں باقی سب ہمارا انتظار کر رہے تھے. صبح ہو چکی تھی اور دن کی روشنی میں دشمن کے علاقہ میں رہنا درست نہ ہوتا. اسی شام ہم پہاڑ کی چوٹی تک چڑهے جو 17500 فٹ کی بلندی پر واقع تهی. وہاں سے دوسری طرف نیچے ہمارا اپنا محفوظ ٹهکانہ تها. میرے لئے یہ زندگی کا پہلا معرکہ تها جس میں میری کامیابی نے میرا حوصلہ بڑهایا اور اگلے معرکوں میں مذید بڑی کامیابیوں کا پیش خیمہ بنا. الحمداللہ #گمنام_پاک_سولجر_حفیظ

No comments:

Post a Comment