Sunday, September 24, 2017

خود ساختہ امن کا محافظ ہی اصل دہشت گرد

۔ انیسویں صدی کی دوسری دہائی میں تاریخ کو ایسے دلدوز وہیبت ناک مناظر دیکھنے کو ملے جن کی تاریخ کو رقم کرنے میں امریکہ کا اہم کردار رہا ہے۔
 ۱۹۱۶ء میں پہلی جنگ عظیم میں کل ۱۶ سولہ ممالک نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ صرف ترکی ایسا واحد ملک تھا جس نے اس خونی جنگ سے اپنے آپ کو کنارہ کش رکھا اور اس کی جنگ عظیم کا حلیف بننے سے انکار کردیا۔ یہ جنگ سربیا کے ایک قوم پرست اور اسٹریا اور ہینگری کے ولی عہد فرانس فرڈی نینڈ کے قتل سے شروع ہوئی۔ ۱۹۱۶ء میں شروع ہونے والی پہلی جنگ عظیم نے ۸۵ لاکھ ۲۸ ہزار ۸۰۰ سے زیادہ انسانی جانوں کو لقمہ تر بنالیا۔ ۱۹۱۸ء میں یہ جنگ اپنے اختتام پر پہنچی۔
 ۱۹۳۹ء میں شروع ہونے والی دوسری جنگ عظیم میں کل ۲۷ ممالک نے حصہ لیا اور یہ سب کے سب غیرمسلم تھے اور اسی دوران ہیروشیما کا انسانیت سوز سانحہ بھی دیکھنے میں آیا۔ جس میں موجودہ دور کے حقوق انسانی اور امن وشانتی پھیلانے کے سب سے بڑے مسیحا امریکہ نے ایک ایٹم بم کے ذریعہ لاکھوں انسانوں کو سوختہ کرڈالا۔ اوراس ملک کی آب وہوا کو مسموم و پراگندہ بناڈالا۔ جہاں کی فضا پر اب بھی موت کا سناٹا چھایا ہوا ہے۔ جہاں ماہرین سائنس جاکر اب بھی تجربہ کرتے ہیں کہ یہ شہر کب اپنی سابقہ حالت پر لوٹ سکے گا۔ بات اسی پر ختم نہیں ہوئی بلکہ تین دن کے وقفہ سے ۹/اگست ۱۹۴۵ء کو ایک اور ایٹم بم جاپان کے شہر ناگاساکی پر گرادیا اور آن کی آن میں ۲۸ہزار سے زائد انسانوں کو جلاکر راکھ کا ڈھیر بناڈالا۔ اور دوسری جنگ عظیم میں ۴۹ لاکھ ۴۰ ہزار انسان موت کے گھاٹ اتاردئیے گئے۔
 ۱۹۴۵ء میں ہی چین پر ڈھائی سو جنگی طیاروں کی مدد سے دولاکھ پونڈ بارود برساکر موت کا رقص عام کیا۔ اسی طرح سے وقفہ وقفہ سے مختلف ممالک امریکی جارحیت و درندگی کا نشانہ بنتے رہے۔
۱۹۵۰ء میں امریکہ نے کوریا پر چڑھائی کردی ۱۹۵۴ء میں کیوبا میں۔ ۱۹۶۴ء میں امریکہ و ویتنام کی جنگ نے ۴۵ ہزار سے زائد لوگوں کو موت کی لپیٹ میں لے لیا۔ اور اس جنگ کا ایندھن بننے والوں میں بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی تھی جو یہ نہیں جانتے تھے کہ ان کا جرم کیا ہے۔ کس جرم کی پاداش میں انہیں موت کی نیند سلایا جارہا ہے۔
 ۱۹۶۵ء میں پیروں، اور ۱۹۷۳ء میں لاوس میں، ۱۹۷۵ء میں ویتنام میں، ۱۹۸۷ء میں گرینیڈا، ۱۹۸۴ء میں لبنان میں،۱۹۸۹ء میں پناما میں، ۱۹۹۱ء میں عراق میں، ۱۹۹۸ء میں سوڈان میں، اور ۱۹۹۹ء میں یوگوسلاویہ میں۔ ان تمام خونی جنگوں کے بعد سوچا جانے لگا کہ شاید اب امریکی انسانیت جاگ اٹھی ہو۔ اس کا نعرہ امن حقیقت میں تبدیل ہوجائے اور دنیا امن وشانتی کا گہوارہ بن جائے۔ امن وامان کا بول بالا ہوجائے۔ لیکن ضمیر فروش اور مردہ دل کے جسم میں انسانیت تھی ہی کہاں کہ جاگتی کیونکہ وہ تو خون چوسنے کا عادی ہوگیا تھا۔ ۲۰۰۱ء کے بعد  افغانستان و عراق میں اپنی درندگی وسفاکیت اور حیوانیت و بہیمیت کا ایسا ننگا کھیل کھیلا  جاتا ہے۔
حال ہی میں عراق کی جنگ کے متعلق سرکاری انکوائری کے چیئرمین سر جان چلکوٹ نے سات سال کے طویل عرصے میں مرتب کی گئی رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ عراق کو وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے پاک کرنے کے لیے حملے سے قبل پرامن طریقے اختیار نہیں کیے گئے۔ اس رپورٹ کے مزید اہم نکات کچھ یوں ہیں:
 ۱۔ اس وقت عراق پر فوج کشی کرنا آخری راستہ نہیں تھا۔ نہ ہی یہ جنگ ناگزیر تھی۔
 ۲۔ وسیع پیمانے پر تباھی پھیلانے والے ہتھیاروں کے خطرے کو بلاوجہ یقینی بنا کر پیش کیا گیا۔ ایسے ہتھیار عراق میں بالکل بھی نہیں تھے۔
 ۳۔ صدام کے بعد عراق کی صورتحال سےنمٹنے کے لیے منصوبہ بندی ناکافی تھی۔ جنگ کے قانونی جواز پر بحث نہیں کی گئی۔
 ۴۔ برطانیہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اختیارات کی اہمیت کو کم کیا۔
 ۵۔ ناقص خفیہ اطلاعات پر پالیسی مرتب کی گئی۔
 ۵۔ ٹونی بیلئر نے صدر بش کو لکھا کہ: ’جو کچھ بھی ہو میں آپ کے ساتھ ہیں۔
 ۶۔ جنگ نے ایک خوفناک انسانی المیے کو جنم دیا جس کی ذمہ داری امریکہ اور برطانیہ پر عائد ہوتی ہے۔
یہی حال انکی باقی مسلط کی گئی جنگوں کا ہے ۔خود امریکا اور عالمی برادری کو بھی یہ ضرور بتانا ہوگا کہ:
*نائن الیون کی آڑ میں اور القاعدہ کے نام پر تقریباً ۱۴ سالہ جنگ کے نتائج مزید تباہی کے علاوہ کیا نکلے؟ گوانتانامو میں تذلیل آدمیت، اُسامہ بن لادن سمیت ہزاروں القاعدہ ممبروں کی جان لینے، افغانستان اور عراق میں اَربوں نہیں کھربوں ڈالر جنگ اور ہلاکت کی بھٹی میں جھونک دینے کے بعد بھی کیا یہ حقیقت نہیں کہ دنیا آج مزید غیر محفوظ ہوچکی ہے؟
*کیا یہ حقیقت نہیں کہ ’نئے مشرق وسطیٰ‘ کے وہ نقشے جو خود امریکی دفاعی وتحقیقی اداروں نے شائع کیے، ان میں خطے کے تمام مسلم ممالک کو مزید تقسیم در تقسیم کرتے ہوئے صرف صہیونی ریاست کی سرحدیں مزید وسعت پزیر دکھائی گئی ہیں۔ اس نقشے پر عمل درآمد کے پہلے قدم کے طور پر عراق اب عملاً تین الگ الگ ریاستوں میں تقسیم ہوگیا ہے۔
*کیا یہ حقیقت نہیں کہ افغانستان و عراق پر قبضے کے بعد امریکی دانشوروں نے ایک پالیسی کے طور پر ’’خود ساختہ و منظم فتنہ و فساد’الفوضی الخلاقہ‘ جیسی اصطلاحیں متعارف کروائیں۔ آج مشرق وسطیٰ سمیت اکثر مسلم ممالک میں مستقل، مسلسل اور ’منظم‘ فتنہ و فساد اسی پالیسی کا نتیجہ ہے۔ کیا یہ ’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ کا نیا ورژن ہے؟
*کیا یہ حقیقت نہیں کہ خود امریکی پالیسیاں عالم اسلام میں پائے جانے والے اس غم و غصے کا اصل سبب ہیں جو مختلف علاقوں اور مختلف صورتوں میں سامنے آتا ہے۔ فلسطین و کشمیر پر قابض افواج کی مکمل سرپرستی، مصر، شام اور بنگلہ دیش جیسے ممالک میں عوام کی آزادیاں سلب کرتے ہوئے ان پر مسلط بدترین ڈکٹیٹرشپ کی کامل پشتیبانی، عراق و افغانستان پر براہِ راست قبضہ اور مختلف مسلم ممالک پر بلا تردد ڈرون حملے وہ ایندھن ہے جو دنیا میں اشتعال کا سبب بن رہا ہے۔ امریکا واقعی دہشت گردی کا شکار اور اس کے خلاف جنگ میں مخلص ہے تو کیوں وہ آگ ہی نہیں بجھا دیتا، جس سے دھواں اُٹھتا اور اُٹھ سکتا ہے۔
*کیا یہ حقیقت نہیں کہ امریکا میدان جنگ و جدال کے علاوہ اپنی اصل جنگ تعلیم، ثقافت اور تہذیب کے میدان میں لڑ رہا ہے۔ سرکاری اور غیر سرکاری اداروں اور تنظیموں کے ذریعے بلامبالغہ کھربوں ڈالر کا بجٹ مسلم معاشروں میں اباحیت اور اخلاقی تباہی کو ترویج دینے پر خرچ کیا جارہا ہے۔ اس کی یہ کھلی جنگ مسلم نوجوانوں میں پائے جانے والے اضطراب کو مزید ہوا دیتی اور انھیں کسی بھی مخالف انتہا تک لے جانی کا باعث بن سکتی ہے۔ کیا دہشت گردی کے خلاف اصل جنگ یہ نہیں کہ دنیا پر مسلط اپنی اس تہذیبی دہشت گردی کو ختم کیا جائے؟
دنیا اب ایک عالمی بستی ہے۔ اس کی کوئی بھی روش اب یک طرفہ اور بلا ردعمل نہیں رہتی۔ اس عالمی بستی کے سب باسی ایک دوسرے سے براہِ راست متاثر ہوتے ہیں۔ بحیثیت انسان اگر ہم اپنا اور دنیا کا مستقبل محفوظ بنانا چاہتے ہیں تو ہم سب کو اپنے اپنے رویے پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ آج کی دنیا میں اگر کوئی ایک فریق بھی ظلم، ہٹ دھرمی اور قتل و غارت پر بضد رہا تو یقیناًوہ خود بھی اس کا نشانہ بن کر رہے گا۔ آجطاقت ور ممالک جابرانہ تسلّط وغلبہ حاصل کرنے کی غرض سے کمزورریاستوں پر مسلسل حملے کررہے ہیں، جس کے نتیجے میں دنیا جنگی صورت حال اور خوف ناک تصادم کی طرف بڑھتی جارہی ہے، جس پر قابو پانا انتہائی مشکل ہے۔اگر یہ استعماری طاقتیں آج بھی اپنے جارحانہ اقدامات روک لیں اور تمام ممالک کو اپنے اصول وآئین کی روشنی میں جینے دیں تو دنیا امن وسکون کی آماج گاہ اور قتل وخونریزی اور جنگ وجدال سے یکسر پاک ہو سکتی ہے۔ آسٹریلیا کے سابق وزیر اعظم ٹونی ایبٹ نے گزشتہ روز بڑی خوبصورت بات کہی ہے کہ ’’ثقافتیں مساوی نہیں ہوا کرتیں اس لیے مغرب کو اپنی بالادستی ظاہر کرنا ہوگی‘‘۔ ہم بھی اس کی تائید کرتے ہیں مگر اس کے ساتھ یہ بھی عرض کریں گے کہ برتری ڈرون حملوں، طاقت کے بے محابہ استعمال، میڈیا کی اندھی یلغار اور لابنگ کی یک طرفہ مہم کے ذریعہ نہیں بلکہ دونوں ثقافتوں کو انسانی معاشرہ میں آزادانہ کردار کے مواقع فراہم کرنے کی صورت میں ہونی چاہیے۔ دنیا کے کسی بھی خطہ میں اسلامی تہذیب و ثقافت، اسلامی خلافت اور اسلامی شریعت کو اپنا کردار آزادانہ طور پر ادا کرنے کا موقع دیجیے اور پھر یہ فیصلہ انسانی سوسائٹی پر چھوڑ دیجیے کہ وہ دونوں میں سے کسی کو قبول کرتی ہے۔ انصاف کا تقاضہ یہی ہے اور موجودہ عالمی مخمصے کا حل بھی اسی میں ہے۔ اس لیے کہ ایک پہلوان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر دوسرے کے ہاتھ میں گرز پکڑا دینے کا نام مقابلہ نہیں ہوتا اور نہ ہی اس طرح کسی کی برتری ثابت کی جا سکتی ہے۔

No comments:

Post a Comment