Wednesday, October 11, 2017

بھارتی فوج 6 ستمبر 1965 کا ناشتہ کبی نہیں بھولی گی

بھارت نے چھ ستمبر کو اچانک لاہور کے تین اطراف سے حملہ کر دیا۔ میجر جنرل نرنجن پرشاد کی قیادت میں پچیسویں ڈویڑن ٹینکوں اور توپ خانے کی مدد سے آگے بڑھ رہا تھا۔ ستلج رینجرز کے مٹھی بھر جوانوں نے ان کا راستہ روک لیا۔ ان کی پلٹنوں کے تمام جوان آخری گولی اور آخری سانس تک لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے۔ بھارتی فوج پو پھٹنے تک بہ مشکل تین میل آگے بڑھ سکی۔ اس محاذ پر پاک فوج صرف سات بٹالینوں پر مشتمل تھی اور محاذ میلوں لمبا تھا۔لاہور میں داخل ہونے کے لیے باٹا پورکے پل پر قبضہ ضروری تھا۔ چنانچہ ایک پورے بھارتی بریگیڈ اور ایک ٹینک رجمنٹ نے دوسرا حملہ کردیا۔ لاہور کو بھارتی یلغار سے بچانے کے لیے نہر بی آر بی کا پل تباہ کرنا بہت ضروری تھا۔ دن کو یہ کام نا ممکن تھا۔
دشمن نے پل کے دائیں بائیں گولوں کی بوچھاڑ کر رکھی تھی۔ پل تک دھماکہ خیز بارود لے جانے کی کوشش میں ایک جوان شہید ہو گیا۔ اس کے بعد چند رضاکاروں نے ہزاروں پونڈ وزنی بارود ایک گڑھے میں اتارا۔ اس پر ریت رکھ کر آگ لگانے والی تاروں کو جوڑا اور گولیوں کی بوچھاڑ کو چیرتے ہوئے واپس آگئے۔ ان کا واپس آنا ایک معجزے سے کم نہ تھا۔ یوں لاہور میں داخل ہونے کی بھارتی امیدیں خاک میں مل گئیں۔ اس کے بعد سترہ دنوں کے دوران بھارتی فوج نے 13 بڑے حملے کیے مگر ایک انچ بھی آگے نہ بڑھ سکی۔
باٹا پور سے شکست کھانے کے بعد بھارت نے بھینی کے محاذ پر دباؤ سخت کر دیا۔ یہ مقام باٹا پور سے سات میل شمال کی طرف واقع ہے۔ دشمن کا ارادہ تھا کہ وہ لاہور شہر کو ایک طرف چھوڑ کر بھینی کے راستے محمود بوٹی کے بند پر پہنچے اور وہاں سے راوی کے پل پر قبضہ کر کے لاہور کو راولپنڈی سے کاٹ دے۔ چنانچہ یہاں دشمن نے انیس حملے کیے اور تقریباً ڈیرھ ہزار گولے برسائے مگر ہر حملے میں منہ کی کھائی۔
برکی سیکٹر پر دشمن نے ایک ڈویڑن اور دو بریگیڈوں کی مدد سے حملہ کیا۔ پنجاب رجمنٹ کی ایک کمپنی اس پر ٹوٹ پڑی اور پورے نوگھنٹے تک دشمن کی یلغار روکے رکھی۔ دشمن نے دوبارہ صف بندی کرنے کے بعد حملہ کیا تو پاکستان کی ٹینک شکن رائفلوں اور توپ خانوں کے گولوں نے دشمن کو آڑے ہاتھوں لیا۔10 ستمبر تک دشمن نے چھ حملے کیے، جنہیں پسپا کر دیا گیا۔
10 اور11 ستمبر کی درمیانی شب دشمن نے پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ حملہ کیا۔میجر عزیز بھٹی شہید نے رات بھر دشمن کو روکے رکھا۔ صبح کے قریب دشمن نے نہر کی طرف سے بھی گاؤں کو محاصرے میں لے لیا تو میجر عزیز بھٹی نے نہر کے مغربی کنارے پر جانے کا فیصلہ کیا۔ ستمبر کی صبح وہ ذاتی سلامتی سے بے نیاز ہو کر نہر کے کنارے ایک اونچی اور کھلی جگہ پر کھڑے اپنے جوانوں کی قیادت کر رہے تھے اور اسی مقام پر انہوں نے لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا، انہیں سب سے بڑا فوجی اعزاز نشان حیدر دیا گیا۔
بھارتی ہائی کمانڈ نے بھیکی ونڈ اور کھیم کرن کے نواح میں تقریباً دوڈویڑن فوج صف آراء کی۔ اس محاذ پر ضلع لاہور کے سرحدی گاؤں بیدیاں کو پیش قدمی کے آغاز کے لیے منتخب کیا گیا۔ اس رات یہاں پاکستانی فوج کی صرف ایک بٹالین موجود تھی۔ اگلے دفاعی مورچوں میں فرسٹ ایسٹ بنگال رجمنٹ کی صرف ایک کمپنی صف آراتھی۔ یہاں دشمن نے چودہ بڑے حملے کیے مگر ایک انچ آگے بڑھ سکے۔ اس کے بعد دشمن نے کھیم کرن پر حملہ کیا، اس کی فضائیہ بھی کود پڑی مگر جلد پسپا ہو گئی۔ دشمن کے سات ٹینک تباہ ہوئے اور 8 ستمبر کو کھیم کرن پر پاکستان کا قبضہ ہو گیا۔ ضلع ساہیوال کی طرف سے موضع نور کی چوکی صرف ایک پاکستانی پلاٹون نے شب خون مار کر فتح کر لی۔ اس کے بعد دشمن نے موضع پکا میں دفاعی پوزیشن لے لی۔
لاہور پر حملے کے چوبیس گھنٹے بعد بھارتی فوج نے تقریباً پانچ سو ٹینک اور پچاس ہزار فوج کے ساتھ سیالکوٹ پر اچانک حملہ کر دیا۔ پاکستان کی طرف سے صرف سوا سو ٹینک اور تقریباً نوہزار جوان میدان میں آئے۔ بھارتی منصوبہ یہ تھا کہ پہلے جسٹر پھر سچیت گڑھ پر حملہ کیا جائے۔ یہاں پاکستانی فوج کو الجھاکر حملہ آور پسرور سے ہوکر جی ٹی روڈ پر پہنچنا چاہتا تھا۔جسٹر پر پاک فوج نے صرف دو بٹالینوں کے ساتھ حملہ آور کا مقابلہ کیا۔ ادھر سچیت گڑھ میں بریگیڈیر ایس ایم حسین نے دشمن کو ناکوں چنے چبوا دیے تھے۔ بھارتی فوج نے چونڈہ کے محاذ پر حملہ کیا تو اس محاذ پر پیدل فوج کی دو بٹالین اور ایک آرمرڈ رجمنٹ دشمن کے استقبال کو موجود تھیں۔ یہاں پاکستان کے صرف تیس ٹینکوں نے بھارت کے ایک سو دیو ہیکل ٹینکوں کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔
دشمن کا پروگرام 24 گھنٹے کے اندر چونڈہ سے آگے بڑھ جانا تھا مگر72 گھنٹے بعد بھی وہ ایک انچ آگے نہ بڑھ سکا چنانچہ وہ مزید طاقت لے کر میدان میں اترا اور اس طرح دوسری عالمی جنگ کے بعد ٹینکوں کی جنگ کا دوسرا بڑا میدان گرم ہوا۔ بھارتی فوج نے سترہ ستمبر کو چونڈہ کے مغرب میں ریلوے لائن سے سڑک کی طرف پیش قدمی شروع کر دی، جہاں ہمارے افسر اور جوان گھات لگائے بیٹھے تھے۔ پاکستانی فوج نے ٹینکوں کے انجن بند کر دیے تھے، دشمن بے خبری میں اپنی کمین گاہ سے پوری طرح نکل آئی تو انہوں نے فائرنگ کا حکم دے دیا۔ اس معرکے میں دشمن کے صرف 105 سپاہی زندہ بچے، جنہیں گرفتا کرلیاگیا۔
بھارت چاہتا تھا کہ پاکستانی فوج کو کارگل سے لے کرتھرپارکر تک تقریباً ڈیڑھ ہزار میل لمبی سرحد پر پھیلا کر کمزور کر دیا جائے،چنانچہ راجستھان کے محاذ پر بھارتی فوج کی ایک پیدل بٹالین نے ٹینکوں کے دو اسکوارڈرنز کی مدد سے گدرو پر حملہ کر دیا۔ یہاں مُٹھی بھر رینجرز نے دشمن کی یلغار کو تین گھنٹے روکے رکھا۔9 ستمبر کو آگے بڑھ کر مونا باؤ پر گولہ باری شروع کر دی۔ اس اسٹیشن سے بھارتی فوج کو رسد پہنچ رہی تھی۔ صرف سترہ گولے برسائے گئے تھے کہ دشمن کی فوج میں کھلبلی مچ گئی۔ مونا باؤ پر قبضہ کرنے سے دشمن کی سپلائی کٹ گئی۔اس معرکے میں سندھ کے حُر مجاہدین بھی فوج کے دست وبازو بنے۔ سندھ کے محاذ پر روہڑی’ کھاری’ جے سندھ اور متراکی فوجی چوکیوں پر پاکستانی جوانوں نے قبضہ کر لیا۔ یوں بھارتی فوج بارہ سو مربع میل گنوا بیٹھی۔
چھمب پر بھارت سے پہلی فضائی جھڑپ ہوئی۔ چند لمحوں میں دشمن کے چار ویمپائر طیاروں کو مار گرایا۔ اس کے بعد اس محاذ پر اسکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم اور فلائٹ لیفٹیننٹ یوسف علی خان نے دشمن کی زمینی فوج کو بے بس کر کے رکھ دیا۔ پاک فضائیہ کے ایک اسٹار فائٹرایف104 نے دشمن کا جہاز پسرو اڈے پر اتارکر اسکواڈرن لیڈر برج پال سنگھ کو گرفتارکیا۔ 6 ستمبر کو بھارت نے پاکستان پر فضائی حملہ بھی کردیا۔ پاک فضائیہ کے دو اسٹار فائٹروں نے دشمن کے چار طیاروں کا مقابلہ کیا اور وہ ایک کو گرا بھی لیا۔ لاہور پر بھارتی فوج کے حملے کے بعد پاکستان کے چھ سیبر طیارے فضا میں یک دم نمودار ہوئے اور بیس منٹ تک دشمن پر بم، راکٹ اور گولیاںبرسائیں۔ پٹھان کوٹ ہوائی اڈے کی تباہی نے بھارتی فضائیہ کی کمر توڑ دی۔ اس کارنامے کے بھی سرخیل سجاد حیدر تھے۔انہوں نے نہایت نیچی پرواز کر کے دشمن کے بارہ جنگی اور دو ٹرانسپورٹ طیارے اڈے پر کھڑے کھڑے ہی تباہ کر دیے اور اڈے کو ناقابلِ استعمال کردیا۔
فضائی تاریخ کا ناقابل فراموش معرکہ ایم ایم عالم کا ہے۔ انہوں نے سرگودھا کے قریب ایک ہی جھڑپ میں چند سیکنڈ کے اندر دشمن کے پانچ طیارے گرا کر عالمی ریکارڈ قائم کر دیا۔21 ستمبر کو سحر سے ذراپہلے ونگ کمانڈر نذیر لطیف اور اسکواڈرن لیڈر نجیب احمد خان نے دو بی57 بمبار طیاروں کے ذریعے دشمن کے ہوائی اڈے کو بموں کا نشانہ بنایا اور یوں انبالہ کے دفاعی نظام کا غرور خاک میں ملا دیا۔ سترہ روز جنگ کے دوران پاکستان کے جرات مند ہوابازوں نے35 طیاروں کو دوبدو مقابلے میں اور 43 کو زمین پر ہی تباہ کر دیا تھا۔ 32 طیارے، طیارہ شکن توپوں کا نشانہ بنے۔ بھارت کے مجموعی طور پر110 طیارے تباہ کیے گئے۔ ہماری فضائیہ نے دشمن کے149 ٹینک 200 بڑی گاڑیاں اور20 بڑی توپیں بھی تباہ کیں جبکہ ہمارے صرف 19 طیارے تباہ ہوئے۔
جنگ ستمبر میں پاک بحریہ کو سمندری جنگ کے معرکوں میں جو برتری حاصل رہی، ان میں معرکہ دوارکا قابل ذکر ہے۔ یہ معرکہ پاک بحریہ کی تاریخ میں یادگار ہے۔ دوارکا کی تباہی کا بیرونی اخبارات میں بڑا چرچا ہوا۔ برطانوی اخبارات نے تو خاص طور پر کہا کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد بھارت کی سرزمین پر سمندر کی جانب سے پہلی گولہ باری ہوئی ہے۔ انہوں پاک بحریہ کی مستعدی کی تعریف کی۔
اس موقع پر جہاں پاکستان کی تینوں مسلح افواج ہر محاذ پر برسرپیکار تھیں، وہاں لاہور کے عوام کا جذبہ بھی بت مثال اور دیدنی تھا۔ پاکستانی عوام فضا میں پاک فضائیہ کے شاہینوں کی کاروائیاں ایسے دیکھتے، جیسے پتنگ بازی ہورہی ہے، دشمن کا طیارہ گرتاتو چھتوں پر بوکاٹا کا شور مچتا۔
1965 اور1971 کی جنگوںمیں پاکستان نیوی کا کردار
کمانڈر(ر)عباس
1965 کی جنگ کے وقت پاکستان نیوی اچھی طرح تیار تھی، جنگ شروع ہوئی تو نیول چیف ایڈمرل افضل رحمٰن خان نے پاک بحریہ کے تمام لڑاکا یونٹس کو ساحل کے قریب دفاعی پوزیشن لینے کا حکم دیا لیکن خلیج بنگال میں کسی جارحانہ کارروائی کا آرڈر نہیں دیا تھا۔جب بھارتی فضائیہ کی بار بار کی کارروائیوں سے پاک فضائیہ کے آپریشن متاثر ہونا شروع ہوئے تو بحریہ کو جارحانہ کردار ادا پڑا۔ 2 ستمبر کو بحریہ کی پہلی طویل رینج آبدوز پی این ایس ایم غازی کو کموڈور نیازی کی کمان میں ہندوستانی بحریہ کی نقل و حرکت اور انٹیلی جنس معلومات فراہم کرنے کے لیے تعینات کیا گیا۔
انہیں ہدایت کی گئی کہ درپیش خطرات سے بھی نپٹاجائے۔ سات اورآٹھ ستمبر کی رات ایک پاکستانی سکواڈرن نے، جو چار ڈیسٹرائر، ایک فریگیٹ، ایک کروزر اور ایک آبدوز پہ مشتمل تھا، کموڈور ایس ایم انور کے زیر کمان بھارتی فضائیہ کے دوارکا کے ساحلی قصبے میں موجود ریڈار بیس تباہ کر دیا۔ اس کاروائی کے بعد پاکستانی سکواڈرن تیزی سے دوارکا سے نکل آیا۔ آبدوز غازی، بھارتی بحریہ کے بمبئی میں موجود مغربی بیڑے کے خلاف حرکت میں لائی گئی۔ 22 ستمبر کو دو تارپیدو ہندوستانی جہاز پے لگے لیکن وہ ڈوبا نہیں۔ 23 ستمبر کو آبدوز غازی اپنے آپریشنز ختم کرکے کراچی روانہ ہوئی۔آپریشن دوارکا نے پاک بحریہ کا وقار بہت بڑھا دیا تھا۔
بعد میں پاکستان نے امریکا سے ٹینچ آبدوز اور فرانس سے تین ڈیفائن کلاس آبدوزیں حاصل کرلی تھیں ،اس کے علاوہ بحری اسپیشل فورسز (کمانڈوز) 1966 میں قائم کی گئی۔ بحریہ نے لڑاکا جیٹ طیاروں پرمشتمل ایک بحری ایوی ایشن ادارہ قائم کرنے کی کوشش کی لیکن فضائیہ نے کھلے سمندر کی کارروائیوں میں طیارے کھونے کے خطرے کے پیش نظر اس کو ترک کردیا گیا تھا۔1970 میں جنرل یحییٰ خان نے اصلاحات کا ایک سلسلہ شروع کیا، جس سے قومی دفاع میں بحریہ کے کردار میں اضافہ ہوا۔
پاک بھارت جنگ 1971 میںپاک بحریہ کی مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش) میں غیر تسلی بخش کارکردگی کی وجہ مشرقی پاکستان میں کم نمائندگی اور خلیج بنگال میں جارحانہ کارروائیوں تھیں۔ اس کا لڑاکا بحری بیڑہ مکمل طور پر (مغربی) پاکستان میں تھا۔
روشن ستارے
وارنٹ آفیسر سید ساجد بخاری
ائیر وائس مارشل ایرک گورڈن ہال (ستارئہ جرأت)
خود اعتمادی کی لازوال دولت سے مالا مال ائیر وائس مارشل ایرک گورڈن ہال (برما) میں پیدا ہوئے ۔ انہوں نے1943 ء میں رائل انڈین ائیر فورس میں کمیشن حاصل کیا۔ تقسیم ن کے وقت نوجوان آفیسر ایرک نے پاکستان کا انتخاب کیا اور انہیں پاک فضائیہ کے عظیم قائد کی قیادت میں رائل پاکستان ائیر فورس سکول میں بحیثیت انسڑکٹر تعینات کر دیا گیا۔ انہوں نے وہاں مستقبل کے نوجوان افسروںکی شاندار تربیت کی۔
رائل پاک فضائیہ میں انہوں نے جن عہدوں پر کام کیا، اُن میںپی اے ایف سٹیشن ڈرگ روڈ کی کمانڈ ، پی اے ایف سٹاف کالج کے ڈپٹی کمانڈنٹ اور ائیر ہیڈ کوارٹرز پشاور میں ڈائریکٹر وار پلانز شامل تھیں۔1965 کی پاک بھارت جنگ کے دوران آپ پی اے ایف بیس چکلالہ (نور خان) کے بیس کمانڈر کی خدمات سر انجام دے رہے تھے۔گروپ کیپٹن ایرک گورڈن ہال نے چکلالہ کے اسٹیشن کمانڈر کی حیثیت سے بھارت کے خلاف جنگ میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ ان کی مثالی راہنمائی اور شاندار قیادت میں تمام آپریشنز کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچے۔
مثال کے طور پر انہوں نے اپنے افسران اور ائیرمینوں کی ہمت افزائی کے لیے بذات خود عملی آپریشنز میں حصہ لیا ۔1965 ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران پاک فضائیہ کا سب سے اہم کارنامہ رات کی بمباری کا مشن تھا۔ گروپ کیپٹن ایرک ہال بحیثیت اسٹیشن کمانڈر چکلالہ C-130 طیارے کی خوبیوں اور صلاحتیوں کو اچھی طرح جانتے تھے ۔ انہی خصوصیات کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کو ہرکولیس C-130 طیارے کو بمبار طیارے کے طور پر استعمال کرنے کا خیال آیا۔ C-130 کی نارمل وزن اٹھانے کی صلاحیت 24 ہزارپاؤنڈ تھی جو کہ اسے دنیا کا سب سے طاقتور اور وزنی بمبار طیارہ ثابت کرتی تھی۔ ایرک نے اس تبدیلی کے عمل میں بذات خود حصہ لیا اور یہ خیال انہیں جنگ ستمبر سے چند ماہ پہلے آیا تھا۔
انہوں نے اپنے تکنیکی ماہرین سے مشورہ کیا تو انہوں نے لکڑی کے صندوق بنانے کا مشورہ دیا جو کہ ان بموں کو طیارے میں لوڈ کرنے اور پھر دشمن کے علاقے میں پھینکنے میں معاون ثابت ہوں۔ انہیں یہ مشورہ پسند آیا اور انہوں نے C-130 طیارے میں مناسب تبدیلیاں کرکے اسے بمبار طیارے میں تبدیل کردیا۔ جمرود ائیر فیلڈ میں اس کی تربیتی مشقیں کی گئیں جو کہ بے حد کامیاب رہیں ۔ یہ بلاشبہ نمبر 6 سکواڈرن کا ناقابل فراموش اور ناقابل یقین کارنامہ تھا۔ اس کامیاب آزمائش کے بعد پاک فضائیہ نے 11 ستمبر1965 کو C-130 طیارے کو کاٹھوا پل (Kathua Bridge ) پر استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا۔ انہوں نے اس پہلے مشن کی قیادت کے لیے اپنے آپ کو رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کیں۔
اس پُر خطر مشن میں غیر مسلح C-130 پوری طرح دشمن کے رحم و کرم پر تھا۔ اس کے بعد اسی طرح کے دو اور مشن جنگ کی نازک صورت حال میں پاک آرمی نے لاہور سیکٹر میں کروائے۔ ان حملوں کا ہدف بی آر بی نہر کے کنارے تعینات بھارتی فوج کی72 طیارہ شکن (آک آک) توپوں پر مشتمل رجمنٹ کا صفایا کرنا تھا۔ نمبر6 سکواڈرن کے باہمت اور بہادر عملے نے ایرک ہال کی قیادت میں اس شاندار طریقے سے حملہ کیا کہ دشمن کی توپوں کو لوہے کا ڈھیر بناتے ہوئے کامیابی سے واپس پہنچ گئے۔ اگرچہ بھارتی فوج نے جنگ کے دوران کئی C-130 طیارے مار گرانے کا دعویٰ کیا مگر تمام 5 عدد موجود ہرکولیس C-130 طیارے صیح سلامت رہے ۔ اپنی بے مثال قیادت اور جوانمردی پر انہیں حکومت پاکستان کی جانب سے ستارہ جرأت سے نوازا گیا۔ 1965 کی جنگ کے بعد ائیر کموڈور ایرک ہال کو ائیر ہیڈ کوارٹر پشاور میں اسسٹنٹ چیف آف دی ائیر سٹاف (ٹریننگ ) تعینات کر دیا گیا۔ بعد ازاں 1968 میں انہیں پاک فضائیہ کی سب سے بڑی بیس ماڑی پور (مسرور) کی کمانڈ سونپ دی گئی۔
اس کے بعد انہیں دو سال کے لیے اسسٹنٹ چیف آف دی ائیر سٹاف (ایڈمن) تعینات کیا گیا۔1971 کی جنگ کے دوران آپ نے بحیثیت وائس چیف آف دی ائیر سٹاف کئی کامیاب جنگی حکمت عملیاں تیار کیں۔ انہیں ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں بطور ائیر اتاشی رہنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ پاک فضائیہ سے ریٹائرمنٹ کے بعد آپ سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل بھی رہے۔ ایرک ہال نے میر جوری سے ویلز میں شادی کی جس سے انہیں ایک بیٹا اور ایک بیٹی عطا ہوئی۔ بیٹی گلین ہال اور کلائیو ہال آج کل ریاست ہائے متحدہ امریکا میں رہائش پذیر ہیں ۔ عظیم جنگ جو اور جانباز کمانڈر 17 جون 1998 ء کو دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ انہیں میری لینڈ قبرستان میں پورے فوجی اعزازات کے ساتھ دفن کیا گیا۔
ونگ کمانڈر سید محمد احمد شہید (ستارئہ جرأت، ستارئہ بسالت)
ونگ کمانڈر سید محمد احمد 30 اکتوبر1930 کو لکھنؤ (بھارت) میں پیدا ہوئے ۔ انہوں نے 1954 ء میں رائل پاک فضائیہ میں شمولیت اختیار کی اور 17 جون 1956 میں بحیثیت فائٹر پائلٹ کمیشن حاصل کیا۔ ونگ کمانڈر سید محمد احمد پاک فضائیہ کے ان چند بہادر فضائی جنگجوؤں میں سے ایک ہیں،انہوں نے 1965 اور1971 کی دونوں جنگوں میں شرکت کی۔ 1965 کی جنگ کے دوران آپ نمبر18 سکواڈرن میں بطور فلائٹ کمانڈر خدمات سر انجام دے رہے تھے۔ اور انہوں نے6 سے 19 ستمبر تک 19 آپریشنل مشنز میں شرکت کی۔19 ستمبر 1965 کو ایسے ہی ایک حملے کے دوران اُن کے طیارے کو میزائل لگنے کی وجہ سے بہت نقصان پہنچا، تو انہوں نے پُرسکو ن اور پُر اعتماد رہتے ہوئے اپنی پیشہ وارانہ مہارت کو بروئے کار لا کے اپنے تباہ شدہ طیاروں کو میدان سے نکال کر پشاور پہنچایا مگر اس کاوش میں آپ سخت زخمی ہو گئے تھے۔1965 کی جنگ کے دوران آپ غازی رہے اور انہیں اس بہادری پر ستارئہ بسالت سے نوازا گیا۔
جب دسمبر 1971 میں جنگ شروع ہوئی تو آپ ڈھاکہ میں سٹاف آپریشنز آفیسر کی خدمات سر انجام دے رہے تھے اس بیس پر صرف ایک نمبر14 سکواڈر ن تھا جس کے مقابلے میں اس علاقے میں 10 بھارتی سکواڈرنز موجود تھے۔ انہوں نے سٹیشن کمانڈر کے ساتھ مل کر دشمن کے حملوں سے بیس کو بچانے کے لیے بہترین منصوبہ بندی کی ۔ سٹاف آفیسر ہونے کی وجہ سے آپ آپریشنل مشن میں حصہ نہیں لے سکتے تھے مگر انہوں نے رضاکارانہ طور پر کئی محیرالعقول آپریشنز میں حصہ لیا اور جانباز قیادت کی بہترین مثال پیش کی۔
4 دسمبر1971 کی رات جب پاک فضائیہ نے مغربی بارڈر پر یلغار کی تو بھارتی فضائیہ نے اسی رات اپنے کینبرا سے تیج گاؤں ائیر فیلڈ پر پانچ دفعہ حملہ کیا تھا،مگر خوش قسمتی سے ہر بار حملہ آور اپنے اہداف سے چُوک گئے اور کوئی نقصان نہ ہوا۔ اگلی صبح پاک فضائیہ کے سیبرز ہر طرح کے حملہ آوروں سے نمٹنے کے لیے چوکس تھے۔ تقریباً صبح کے 7:30 پر ونگ کمانڈر احمد اپنے ونگ میں شامل فلائنگ آفیسر رُشدی کے ساتھ ڈھاکہ کی فضاؤں میں تھے کہ اچانک بھارتی فضائیہ کے چار ہنٹر طیارے وہاں حملہ آور ہو گئے۔
ونگ کمانڈر احمد حملے کے لیے بالکل تیار تھے کہ کچھ MIG-21 اور SU-7 طیارے بھی وہاں پہنچ گئے۔ احمد نے شاندار مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے چند سیکنڈز میں ایک ہنٹر کو شکار کر لیا۔ اس گھمسان کی جنگ میں ہنٹر فارمیشن کے لیڈر نے احمد کے F-86 سیبر پر میزائل داغ دیا جو ہدف پر لگا اور انہوں نے کور میتولا سے پانچ میل دور پیرا شوٹ سے چھلانگ لگائی ۔
بہت تلاش و بسیار کے باوجود آپ نہ ملے تو انہیں شہید قرار دے دیا گیا۔ انہیں انتہائی نا موافق حالات میں ہمت اور شاندار بہادری دکھانے کی وجہ سے بعد از شہادت ستارئہ جرأت سے نوازا گیا، جس میں انہیں درج ذیل سنہری الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا گیا کہ 4 دسمبر 1971 کی صبح جب ہماری معمول کی فارمیشن ڈھاکہ کی فضاؤں میں تھی تو اچانک دشمن حملہ آور ہو گیا اور وہاں اُن کی مدد کو اور طیارے بھی آ پہنچے ۔ معمول کی پٹرولنگ پرواز والی فارمیشن نے اتنی تعداد میں دشمن کے طیاروں کو دیکھ کر مدد مانگی تو ونگ کمانڈر احمد فوراً اُڑان بھر کے وہاں پہنچے اور دشمن سے پنجہ آزما ہو گئے۔اس سے پٹرولنگ پارٹی بحفاظت بیس پہنچ گئی۔ اسی معرکہ میں دشمن کے ایک طیارے نے احمد کے طیارے کو میزائل مارا اور انہوں نے باغیوں کے مقبوضہ علاقے میں پیراشوٹ سے چھلانگ لگائی تھی ۔ انہیں بعد ازاں سرکاری طور پر جنگ میں گمشدہ قرار دے دیا گیا تھا۔ اُنہیں فرض سے بے مثال جانثاری اور غیر معمولی ہمت دکھانے پر ستارہ جرأت سے نوازا گیا۔
فلائنگ آفیسر محمد افضل خان (شہید)
فلائنگ آفیسر محمد افضل خان (شہید)11اپریل 1942ء کو پلندری، ضلع پونچھ (آزاد کشمیر ) میں پیدا ہوئے۔ انہوںنے 29جنوری 1960 میں پاک فضائیہ کو جوائن کیا۔ 1965 کی جنگ کے دوران وہ مشرقی علاقے میں10بھارتی فضائی سکواڈرن کے خلاف ڈھاکہ کی واحد نمبر 14سکواڈرن میں تعینات کیے گئے۔ 7ستمبر 1965 کو 10:30بجے بھارتی فضائیہ کے کلائی کنڈہ سٹیشن کے خلاف اسی دن کے دوسرے مشن میں حصہ لیا۔ فلائیٹ لفٹیننٹ عبدالحلیم کی قیادت میںایک بمبار ٹیم تشکیل دی گئی، فلائنگ آفیسر محمد افضل خان بھی اپنے دوسرے ساتھیوں فلائیٹ لیفٹیننٹ بصیر اور فلائیٹ لیفٹیننٹ طارق حبیب کے ساتھ اس مشن کا حصہ تھے۔ چار جہازوںکی فارمیشن نے کامیاب حملہ کیا اور کلائی کنڈہ سے پرواز کے لیے تیار بھارتی فضائیہ کے طیاروں کو تباہ کر دیا گیا تھا۔ بیس پر موجود دوسرے قیمتی اثاثہ جات کوبھی تباہ کیا گیا۔ مشن سے واپسی کے دوران ہنٹرطیاروں کے ایک گروپ نے ان کا پیچھا شروع کر دیا۔ کم ایندھن ہونے کی وجہ سے ان کے پاس اس علاقے سے تیرز رفتاری سے گزر جانے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا ۔ اسی دوران دشمن کا ہنٹر افضل کے طیارے کے پیچھے آگیا اور دونوں کے درمیان فضائی جنگ شروع ہو گئی۔
افضل آخر وقت تک ہمت اور بہادری سے لڑتے رہے تاہم ان کا طیارہ دشمن کے علاقے میںگرا لیاگیا اور انہیں شہادت کا مرتبہ حاصل ہوا۔ مشن توکامیابی سے مکمل کر لیا گیا مگر انہوں نے اپنی جان ملک کے لئے قربان کر دی ۔ فلائنگ آفیسر افضل پاک فضائیہ کے بہادر، با ہمت اور اعلیٰ پیشہ ورانہ خصوصیات کے حامل فضائی جنگ جو تھے،انہیں آنے والے وقتوں میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
6 ستمبر 1965ایک محاذ کا آنکھوں دیکھا حال
راجہ حق نواز دھنیال
(تمغہ جنگ اور ستارۂ حرب)
چھمب جوڑیاں کے محاذ پر افواجِ پاکستان 12 میل تک اندر جا چکی تھیں۔ جہاں جنرل اختر ملک کامیابی سے ایڈوانس کرا رہے تھے۔ جوڑیاں کے قلعے پر ہمارے کمانڈو دستے کی قیادت کرتے ہوئے میجر سرور شہید (پہلے نشان حیدر) نے پاکستانی جھنڈا لہرا دیا اور پھر جام شہادت نوش کیا، یہاں سے 500 فوجی گرفتار کرکے اٹک قلعے میں بھیجے گئے۔ جوڑیاں سے آگے اکھنور کا علاقہ بالکل قریب تھا، جہاں قبضہ ہو جاتا تو کشمیر کا واحد راستہ، ولٹوہا پاکستانی افواج کے قبضے میں آ جاتا۔یوںکشمیر کی لائین آف کمیونیکیشن ختم ہو جاتی، یہ بھارت کے لیے انتہائی خطرناک مرحلہ بن گیا تھا۔
اسی کے مصداق وزیراعظم ہند لال بہادر شاستری نے پہلے کئی مواقع پر اور اب یکم ستمبر 65 کو اعلان کیا کہ وہ اپنی مرضی کا محاذ کھولے گا۔ پاکستان نے اسے گیدڑ بھبکی کے طور پردرخوراعتنا نہ سمجھا۔ یعنی 5 ستمبر کی شام تک افواج پاکستان کو کسی تیاری کا حکم نہ ملا تھا۔ 6 ستمبر صبح ساڑھے دس دن بجے فالن کی سیٹی بجی تو پتہ چلا کہ ہندوستان نے رات کو پاکستانی علاقوں پر خصوصاً لاہور کو کاٹنے کے لیے برکی واہگہ اٹاری سیکٹروں پر حملہ کر دیا ہے۔
یہ 60 ہزار فوجیوں کی یلغار تھی جو رات کو BRB نہ تک پہنچ سکی، کچھ ٹروپس آگے بڑھے اور ہڈیارہ گاؤں پر قبضہ کر لیا، جو میری میڈیم آرٹلری کی 29 بیٹری نے اپنی انفنٹری پلٹنوں کو کورنگ (Covering) فائر دیتے ہوئے صبح 9 بجے تک ہڈیارہ گاؤں خالی کرا لیا تھا۔ دشمن اپنی بے شمار لاشیں چھوڑ کر بھاگتے ہوئے واپس باؤنڈری لائن سے پار ہو چکا تھا اور میں برکی کے اسی محاذ پہ تھا اور ہمارے سامنے BRB نہر کے ساتھ میجر راجہ عزیز بھٹی کی کمپنی تھی، جس کا تعلق پنجاب بٹالین سے تھا، جسے میری بیٹری میڈیم گنوں سے کورنگ Covering فائر دے رہی تھی۔ عزیز بھٹی خود نہر پار کرکے آبزرور پوائنٹ پر جا کر دشمن کا تجزیہ کرتے رہے، واپسی پر نہر کے اِس کنارے کھڑے تھے کہ دشمن کے ٹینک کا گولہ لگنے سے شہید ہو گئے اور ستمبر 65 کی جنگ کے نشان حیدر کے مستحق ہوئے۔ برکی اور واہگہ اٹاری یعنی لاہور باؤنڈری کی حفاظت 10 ڈویژن کے ذمہ تھی۔
اور one آرمڈ ڈو بھی مددگار تھا۔ جب یہاں افواج ہند کے دانت کھٹے ہو ئے اور لاہور جم خانہ نہ پہنچ سکے تو 12 ستمبر کو انہوں نے 600 ٹینکوں اور 50 ہزار فوجیوں کے ساتھ گوجرانوالہ اور وزیر آباد پر قبضے کے لیے براستہ سیالکوٹ چونڈہ پیش قدمی کی۔ یہاں 15 ڈویژن اور 6 آرمڈ ڈویژن نے چونڈہ محاذ پہ پہلے چند گھنٹوں میں دشمن کے 35 ٹینکوں عملے سمیت تباہ کر دیا، اسی محاذ پر پاکستانی فوجی سینوں پہ بم باندھ کے ٹینکوں کے آگے لیٹے تھے۔ پہلے ہی دن، یعنی 7 ستمبر کو پٹھان کوٹ، ہلواڑہ، انبالہ، لدھیانہ جالندھر، جام نگر اور آدم پور کے ہوائی اڈے، ہماری ایئرفورس نے ناکارہ بنائے۔ پہلے 24 گھنٹوں میں ہندوستان کے 31 طیارے تباہ کردیے گئے۔ ایم ایم عالم نے 6 بج کر 5 منٹ پر 30 سیکنڈ میں 4 ہنٹر طیارے مار گرائے اور ایک ہنٹر اس سے پہلے بھی گرا چکے تھے، یہ عالمی ریکارڈ ہے۔ بریگیڈیئر احسن رشید شامی کمانڈر 10 ڈویژن آرٹلری کھیم کرن محاذ پر اپنے کمانڈ پوسٹ سے نکل کر انفنٹری یونٹ کے ساتھ 12 میل دشمن کے علاقے میں چلے گئے۔ لاہور ٹی وی نے کھیم کرن پہ قبضہ کی پوری فلم دکھائی، بریگیڈیئر احسن رشید شامی آپریشن کے دوران شہید ہو گئے۔
اسی دوران 11 ستمبر کو قائداعظم کی برسی پہ سپریم کمانڈر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے کہا تھا ’’اے قائداعظم آپ نے فرمایا تھا کہ پاکستان قائم رہنے کے لیے بنا ہے، ہم آپ کے اس قول پر اپنا خون نچھاور کرکے اسے قائم و دائم رکھیں گے‘‘۔ 20 ستمبر کو سلامتی کونسل نے جنگ بندی کی قرارداد پاس کی اور پھر کشمیر میں رائے شماری کا وعدہ کیا۔ اس طرح 23 ستمبرکو 17 روزہ جنگ ستمبر 65 ختم ہو گئی۔ 10 جنوری 66 کو روسی وزیراعظم کوسیجن کی کوششوں سے محمد ایوب خان اور لال بہادر شاستری نے معاہدۂ تاشقند پہ دستخط کرکے اپنی افواج کو جنگ سے پہلے والی پوزیشنوں پر واپس بھیج دیا۔ شاستری ماسکو ہی میں فوت ہو گئے تھے۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب کی تقریر نے بھی اس جنگ میں ولولہ پیدا کر دیا تھا، انہوں نے 10 بجے دن کے قریب یہ کہا تھا ’’ اے 10 کروڑ کلمہ پڑھنے والو! تمہاری مقدس سرزمین پر کفار نے اپنے ناپاک قدموں سے گھسنے کی کوشش کی ہے، اُٹھو اور سیسہ پلائی دیوار بن کر دشمن کو بتا دو کہ تمہارا کس قوم سے واسطہ پڑا ہے۔‘‘

#PakSoldier HAFEEZ

No comments:

Post a Comment