Tuesday, October 10, 2017

آئی ایس آئی کے ایک آفیسر کا جاسوسی کی دنیا میں قابل فخر کارنامہ

جنگوں کے دوران جاسوسی ہر ملک کا ایک اہم ہتھیار ہوتا ہے۔ یہ آج سے نہیں بلکہ زمانہ قدیم سے جنگی حکمت عملی کا طریقہ کار چلا آرہا ہے کہ دشمن کے ارادوں اور تیاری سے کسی طرح سے بروقت آگاہی حاصل کی جا سکے ۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں جاسوسی کا بھرپور استعمال کیا گیا۔ جدید دور میں سٹیلائٹ اور جاسوسی کے آلات کی اہمیت بھی بہت بڑھ گئی ہے جس سے طرقی یافتہ ممالک بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں اور دوسرے چھوٹے ملکوں کے لیے ان سے کوئی چیز چھپا کر رکھنا محال ہے۔جاسوسی میں آئی ایس آئی نے ساری دنیا کی ایجنسیوں میں اپنا لوہا منوایا ہے اور دنیا کی بہترین ایجنسیوں میں شامل ہے ۔ خاص کر جب روس نے افغانستان پر حملہ کیا تو اس وقت آئی ایس آئی کھل کر سامنے آئی اور پھر ساری دنیا میں اس کی دھاک بیٹھ گئی۔آئی ایس آئی کے ایک آفیسر نے ایسا کارنامہ سرانجام دیا کہ جس کی داد نہ دینا یقیناََ زیادتی ہوگی ۔ اس آفیسر نے بھارت اور اسرائیل کے مل کر پاکستان کے نیوکلئیر پروگرام پر حملے کے منصوبے کا بروقت پتا چلا کر دنیا کو شاید ایٹمی جنگ سے بچا لیا۔ ورنہ اگر حملہ ہو جاتا تو پاکستان کو بھی جواباََ حملہ کرنا پڑتا۔ پھر کیا ہوتا اس کا اندازہ لگانا اتنا مشکل نہیں ہے۔ اگر پاکستان آئی ایس آئی کا یہ جری مجاہد اس منصوبے کا بروقت پتہ نہ چلا لیتا تو پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کے ساتھ وہی کچھ ہوتا جو عراق کے ساتھ ہو چکا تھا۔ہوا کچھ یوں تھا کہ 7 جون 1981 میں عراق کے ایٹمی ری ایکٹر کو کامیابی سے تباہ کر دیا۔ اسرائیل کے 8 ایف – سولہ طیاروں نے 600 میل کی پرواز کے بعد کامیابی سے عراق کے زیر تعمیر ری ایکٹر پر حملہ کیا اور اسے تباہ کرنے کے بعد صحیح سلامت واپس چلے گئے۔ اس کامیابی کے بعد اسرائیل کا حوصلہ بہت بڑھ گیا اور اس نے انڈیا کے ساتھ ملکر پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا ۔دی ایشین ایج کی دو جرنلسٹس کی لکھی ہوئی ایک مشہور کتاب ‘ڈیسیپشن پاکستان، دی یو ایس اینڈ گلوبل ویپن کنسپیریسی’ میں اس سارے واقعے کی کافی تصیلات موجود ہیں ۔یہ 80 کی دہائی کا درمیانی عرصہ تھا ۔ انڈین گجرات کے جمان گڑھ ایئر فیلڈ پر اسرائیلی جہازوں کا ایک سکواڈرن پاکستان کے کہوٹہ ایٹمی پلانٹ پر پر حملہ کرنے کے لیے بلکل تیار تھا ۔ انہوں نے پاکستان کا ایک بڑا مسافر بردار جہاز جو صبح سویرے بحر ہند کے اوپر سے گزرکر اسلام آباد جاتا تھا کو گرانے کا ارادہ کر لیا۔ ان کا منصوبہ یہ تھا کہ وہ ایک ٹائٹ گروپ کی شکل میں پرواز کرتے ہوئے پاکستان میں داخل ہو جائیں گے تاکہ پاکستانی ریڈارز کو دھوکہ دیا جا سکیں ریڈار آپریٹرز یہ سمجھیں کہ شائد یہ کوئی ایک ہی بڑا مسافر بردار جہاز ہے ۔ پھر وہ کہوٹہ پر حملہ کر دیں گے اور وہاں سے سیدھے جموں کشمیر جاکر ری فیولنگ کرینگے۔اس سلسلے میں آئی ایس ایس کے ایک آفیسر کا کارنامہ ہمیشہ سے یاد رکھا جائے گا۔ میجر (ر) عامر نے ان باتوں کا انکشاف سلیم سافی کے پروگرام ‘جرگہ’ میں کیا ہے۔ میجر عامر اس وقت آئی ایس آئی کے اسلام آباد میں سٹیشن چیف تھے۔ اسرائیل اس حملہ کے لیے پاکستان ائر فورس کے ایک سزا یافتہ پائلٹ کو استعمال کر رہے تھے۔ اس پائلٹ کو اسرائیل نے انگلینڈ کے ایک ڈانسنگ کلب سے اٹھایا تھا اور اس کو اسرائیل لے گئے تھے جہاں اس کی برین واشنگ کی گئی اور پھر اسے پاکستان بھیج دیا گیا،۔ کہوٹہ پر حملہ کے لیے بھی اسرائیل اس بھگوڑے پائلیٹ کو استعمال کر رہا تھا۔ لیکن میجر عامر اس صورت حال سے آگاہ ہوچکا تھا۔ میجر (ر) محمد عامر نے سارا واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ ان دنوں میں ایک کتاب پڑھ رہا تھا جو موسادکے ایک سابق چیف نے لکھی تھی اس کتاب میں ذکر آیا کہ چاڈ میں جب ہم نے آپریشن کیا تو چونکہ وہاں ہمارا سفارتخانہ نہیں تھا تو ہم نے ارجنٹائن کے سفارتخانے کواستعمال کیا۔ میجر(ر) عامر نے کہاکہ اس سے میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ ان کا تو پاکستان میں بھی کوئی سفارتخانہ نہیں ہے کہیں وہ یہاں پر توکوئی ایساکام نہیں کر رہے میں نے جب ارجنٹائن کے سفارتخانے سے جو اسلام آباد میں تھامعلوم کیا تو وہاں دوڈپلومیٹ تھے ایک سفیر تھا اور دوسرا فرسٹ سیکرٹری تھا۔ فرسٹ سیکرٹری کانام لوسٹن تھا میں نے اسں کی خفیہ طور پر نگرانی شروع کرا دی ایک دن لوسٹن اڈیالہ جیل گیا وہاں سے میں نے معلومات لیں تو پتا چلا کہ وہ یہاں پر ایک ائیرفورس کے پائلٹ سے ملا تھا جس کا کورٹ مارشل ہوا تھا۔جب وہ پائلٹ جیل سے رہا ہوکر باہر آیا تو میجر (ر) عامر کا کہنا تھا کہ میں اسے اپنا نام سعید خان بتایا۔ اور اس سے ملاقات میں اسے کہا کہ میں ایک پختون قوم پرست ہوں ان دنوں ناراض پختونوں کی ایک تحریک چل رہی تھی۔ میجر (ر) نے کہا کہ میں اس کے ساتھ 2 سال تک اٹیچ رہا جس کے مجھے اسرائیل کے اس منصوبے کا پتہ چل گیا۔پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اس ساری صورت حال کا جائزہ لے رہی تھی۔ حملہ صبح 4 بجے ہونا تھا اور جنرل ضیاءالحق کو رات 12 بجے اطلاع دی گئی ۔ جنرل ضیاء نے ساری صورت حال کا تیزی سے جائزہ لیا اور فوری فیصلہ کیا کہ حملے کو روکا نہیں جائیگا بلکہ ناکام بنایا جائیگا تاکہ پاکستان کو جوابی حملے کا جواز مل سکے اور فوراً ہی ایک بھرپور جوابی حملے کا پلان بنایا گیا ۔ پاکستانی ایئر فورس کے تین دستے تشکیل دئیے گئے ۔ پہلے دستے کا یہ کام تھا کہ وہ اسرائیلی جہازوں کے حملے کو ناکام بنائے اور ان کو مار گرائے۔ دوسرے دستے کو انڈیا کے بھا بھا نیوکلئیر پلانٹ کو تباہ کرنے کا ٹاسک ملا ۔ جبکہ تیسرے دستے کو نجیو ڈیزرٹ میں موجود اسرائیل کے ڈیمونا نیوکلئیر پلانٹ کو تباہ کرنے کا ٹاسک دیا گیا ۔ لیکن اسرائیل پر حملے میں مسئلہ یہ تھا کہ پاکستانی جہاز وہاں ری فیولنگ نہ کر پاتے اور انکا گرنا لازمی تھا ۔ اس میں واپسی ناممکن تھی۔ اس کے لیے چار جانبازوں کی ضرورت تھی، جب پاکستان ائر فورس کے ہوابازوں سے پوچھا گیا تو اس کے لیے 10 ہواباز تیار ہو گئے جس بنا پر ان کے درمیان 4 افراد کے چننے کے لیے قرعہ اندازی کرنا پڑی۔جنرل ضیاء اور پاکستانی ائیر فورس عالم اسلام کے دو بڑے دشمنوں کو انکی ایٹمی قوت سے محروم کرنے کا ایک سنہری موقع سمجھ رہے تھے ۔ امریکی سیٹلائیٹ نے پاکستانی جہازوں کی غیر معمولی نقل و حرکت کو نوٹ کیا اور فوراً اسرائیل اور انڈیا کو آگاہ کیا اور انہوں نے نہایت شرمندگی سے پسپائی اختیار کرلی ۔#PakSoldier HAFEEZ

No comments:

Post a Comment