اُس قیامت خیز دن کی یاد میرے ذہن میں بالکل تازہ ہے۔
دس اپریل انیس سو اٹھاسی کو صبح دس بجے کے قریب میری آنکھ بھی اسی دھماکےسے کھلی تھی اور گہری نیند میں اس دھماکے کی آواز سے مجھے یوں محسوس ہوا تھا کہ کسی نے کوئی جستی صندوق دوسری یا تیسری منزل سے گلی میں پھینک دیا ہو۔ افغانستان پر سویت یونین کے حملے کے بعد سے پاکستان اور پاکستان کے گرد نواح میں پرتشدد اور خونی واقعات کا جو ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا تھا اُن ہی واقعات میں دس اپریل انیس سواٹھاسی بھی ہے جو ملک کے حالیہ سیاسی مدوجزر میں ذہنوں سے شاید محو ہو گیا ہے۔لیکن راولپنڈی شہر کے بہت سے باسی جن کے پیارے اس ناگہانی آفت میں ان سے جدا ہو گئے تھے وہ شاید اس کو کبھی نہ بھلا پائیں۔ اس دن راولپنڈی شہر کے باسیوں پر افغانستان بھیجے جانے والی امریکی میزائیلوں کی بارش میں ایک غیر مصدقہ اندازے کے مطابق پانچ ہزار کے قریب معصوم لوگ لقمہ اجل بن گئے تھے۔ ان ہی لوگوں میں نئی کابینہ میں شامل شاہد خاقان عباسی بھی شامل ہیں جن کے والد اور اُس وقت کے وفاقی وزیر پیداوار خاقان عباسی میزائیل سر میں لگنے سے ہلاک ہو گئے تھے۔
بستر سے اٹھتے ہی میں ملت کالونی میں واقع اپنےگھر کے باہر پورچ میں آگیا جہاں میری مرحوم والدہ حیرت سے کھڑی آسمان کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ ہمارے گھر کی تیسری منزل پر ایک میزائیل آ کر لگا اور کچھ کنکر ہمارے سروں پر آ کر لگے تو ہم پورچ کی چھت تلے آ گئے۔ چند لمحوں بعد ایک اور میزائیل چند گھر چھوڑ کر گر اور اس کے بعد چند گھر چھوڑ کر ایک اور میزائیل گرا۔فضا میں میزائیلوں کی آوازیں آ رہی تھیں اور اس دوران ہمارے گھر کی تیسری منزل پر ایک میزائیل آ کر لگا اور کچھ کنکر ہمارے سروں پر آ کر لگے تو ہم پورچ کی چھت تلے آگئے۔ چند لمحوں بعد ایک اور میزائیل چند گھر چھوڑ کر گرا اور پھر ایک اور میزائیل گرا۔ یہ میزائیل جن میں ڈیٹونیٹر لگے ہوئے نہیں تھے اس لیے پھٹےنہیں ورنہ شاید پورا شہر کھنڈر میں تبدیل ہو جاتا۔پہلے تو مجھے خیال آیا کہ شاید بھارت نے کہوٹہ پر فضائی حملہ کر دیا ہو اور پاکستان افواج زمین سے جوابی کارروائی کر رہی ہوں۔پھر سوچا گھر سے باہر جا کر معلوم کیا جائے آخر ہو کیا رہا ہے۔ موٹر سائیکل نکالی اور گلاس فیکٹری چوک کی طرف جانے لگا۔ تھوڑی دور پہنچ کر ایک عجیب منظر دیکھا کہ ساری خلقت مخالف سمت میں دوڑی چلی آ رہی ہے۔ ایک نوجوان جو شاید کسی میزائیل کے گرنے سے بال بال بچا تھا زارو قطار روتا ہوا میری موٹر سائیکل کے سامنے آگیا اور چلا چلا کر کہنے لگا’ باؤ جی مینوں بچالو‘۔ میں نے اسے دلاسا دیا اور موٹرسائیکل پر بیٹھا کر اس طرف ہو لیا جس طرف ساری خلقت دوڑی جا رہی تھی۔ تھوڑی دور جا کر اس نوجوان کو اتارا اور مری روڈ کی جانب ہو لیا۔سکستھ روڈ پر پہنچ کر پتہ چلا کہ اوجڑی کیمپ میں دھماکہ ہو گیا ہے۔ ایک افراتفری کا عالم تھا کچھ لوگ سڑک کو بلاک کر کے لوگوں کو اس طرف جانے سے روک رہے تھے۔ میں روکاوٹوں کو عبور کرتا ہوا اوجھڑی کیمپ کی طرف بڑھ رہا تھا کہ ایک اور صحافی دوست سے ملاقات ہو گئی۔ اس کے ساتھ میں اوجھڑی کیمپ سے پہلے اس سے ملحقہ آبادی گلش دادن خان کی گلی میں داخل ہو گیا۔پہلے تو مجھے خیال آیا کہ شاید بھارت نے کہوٹہ پر فضائی حملہ کر دیا ہو اور پاکستان افواج زمین سے جوابی کارروائی کر رہی ہوں۔ گلی میں پہنچ کر سوچا کسی گھر میں جاکر فون استعمال کرنے کی درخواست کی جائے اور دفتر کو حالات سے آگاہ کیا جائے۔ میں اپنے دوست کے ہمراہ ایک گھر میں داخل ہوا۔ گھر کے دروازے کھلے پڑے تھے اور بہت سے دروازوں کے کواڑ ہی چوکھٹوں سے الگ پڑے تھے۔ گھر کے اندر داخل ہو کر معلوم ہوا کہ مکین بھرا گھر کھلا چھوڑ کر جان بچا کر بھاگ گئے ہیں۔ میں ایک عجیب سی وحشت میں دوست کا ہاتھ پکڑ کر گھر سے فوراً باہر آ گیا۔ پورا محلہ خالی پڑا تھا۔اس آبادی میں سارے لوگ گھروں کو کھلا چھوڑ کر محفوظ مقامات پر منتقل ہو گئے تھے۔ بہت سے گھروں کی چھتیں گر گئی تھیں جو باقی تھے وہ کھلے پڑے تھے۔ اسی دھماکے کے بعد لوگوں کو علم ہوا کہ اوجھڑی کیمپ امریکہ سے افغانستان بھیجے جانے والے اسلحہ کا ایک بڑا ذخیرہ ہے۔دو دن تک اسلحہ کے اس ڈھیر میں آگ لگی رہی اور دھماکے بھی ہوتے رہے۔ اس دھماکے سے چند دن پہلے یہ افواہیں بھی گردش کر رہی تھیں کہ امریکہ سے دفاعی ماہرین کی ایک ٹیم افغانستان کو بھیجے جانے والے اسلحہ کے بارے میں تحقیقات کے لیے اسلام آباد پہنچ رہی ہے۔اس وقت کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے لیفٹینٹ جنرل عمران اللہ کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جس کی رپورٹ ایوان صدر میں پہنچ کر کہیں گم ہو گئی۔ رپورٹ تو آج تک منظر عام پر نہ آ سکی لیکن چند ماہ بعد ہی جونیجو حکومت برطرف کر دی گئی۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ حادثہ تھا، تخریب کاری یا اسلحہ کی مبینہ چوری چھپانے کی کوشش۔ اس دھماکے سے چند دن پہلے یہ افواہیں بھی گردش کر رہی تھیں کہ امریکہ سے دفاعی ماہرین کی ایک ٹیم افغانستان کو بھیجے جانے والے اسلحہ کے بارے میں تحقیقات کے لیے اسلام آباد پہنچ رہی ہے۔اوجھڑی سے افغانستان جانے والے اسلحہ میں سٹنگر میزائیل بھی شامل تھے جن کے ’غلط‘ ہاتھوں میں پہنچنے کی بھی خبریں تھیں۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ حمیدگل کے مطابق اس کیمپ میں دو سو اڑتالیس سٹنگر تھے جو سب کے سب دھماکے میں تباہ ہو گئے تھے۔
No comments:
Post a Comment