Friday, October 20, 2017

اسامہ بن لادن کون تھا

گیارہ مارچ انیس سو ستاون کے دن سعودی عرب کے شہر جدہ میں "محمد بن عود بن لادن کے گھر میں ایک بچے کی پیدائش ہوئی,

اگرچہ محمد بن عود بن لادن کے اس سے قبل سترہ بچے موجود تھے ، لیکن یہ بچہ اپنی ماں کا اکلوتا بچہ تھا " اس کے خوبصورت نین نقوش دیکھتے ہوئے محمد بن عود نے اس کا نام اسامہ رکھ دیا، اسامہ بن لادن نے جب آنکھ کھولی تو ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جو کہ رب کی عطا کردہ دولت سے مالا مال تھا ایک ایسا گھرانہ کہ جب سعودی عرب کے بادشاہ کے پاس سرکاری جہاز نہ تھا لیکن اسامہ کا والد محمد بن عود اپنے ذاتی طیارے کا مالک تھا ، ایک کامیاب بزنس میں ہونے کے ساتھ ساتھ محمد بن عود ایک کامیاب محبت کرنے والا باپ بھی تھا اور وہیں عود اس سے کہیں زیادہ دین سے محبت کرنے والا اور امت مسلمہ کے درد کو محسوس کرنے والا بھی تھا، اسامہ بن لادن کا والد جب اپنے سب بچوں کو اکٹھا کرکے قرآنی آیات پر درس دیتا تھا تو اسامہ کے چہرے کے تاثرات بتاتے تھے کہ رب نے اسے ایک عظیم مقصد کے لئے پیدا کیا ہے

زندگی کا پہیہ چلتا رہا اسامہ چلنے پھرنے لگا بھاگنے دوڑنے لگا کہ ایک دن اسامہ صبح صبح بھاگتا ہوا اپنے والد کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ "اباجی میں نے خواب دیکھا کہ دور سے کچھ لوگ گھوڑوں پر سوار ہو کر آرہے ہیں اور مجھے مار کر چلے جاتے ہیں" باپ نے بیٹے کا وسوسہ سمجھ کر بات کو ٹال دیا دوسرا دن اسامہ دوبارہ آتا ہے اور یہی خواب سناتا ہے، تیسرے دن بھی جب بیٹا یہی خواب سناتا ہے تو محمد بن عود اپنے بیٹے اسامہ کو لیکر قریبی مسجد کے امام کے پاس جاتا ہے ساری کیفیات سننے کے بعد امام کی نگاہیں اسامہ کے چہرے پر گڑ جاتی ہیں وہ کہتا ہے

محمد بن عود لے جا اسے ایک وقت آئے گا جب رب کائنات اسے اسلام کی عظمت کا مینارہ نور بنائے گا
اسامہ چلا آیا اسامہ اسکول ختم کرکے کالج پہنچا وہ تمام طلباء سے یکتا تھا وہ تمام طلباء سے جدا تھا

اسامہ کا پسندیدہ سبق "قرآن کریم " کی تفسیر پڑھنا تھی
اسامہ کی زندگی کے کئی پہلو ہیں جنہیں آج کے دور کے اس ظالم اور جابر میڈیا نے چھپا دیا اسلام کے اس مرد قلندر اور عظیم مجاہد کے ان تمام اوصاف کو چھپایا گیا جن کی بدولت رب کائنات نے اسے اتنا عظیم مرتبہ عطا کیا

دولت اور پیسے کی ری پیل ہونے کے باوجود اسامہ کے قدم ڈگمگائے نہیں وہ ذرا بھی اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہٹا
یہ اسامہ تھا جو کہ اپنے اردگرد غریبوں بیوائوں اور یتیموں کی ہر دم مدد کرتا تھا

یہ اسامہ ہی تھا جو کہ اپنی پرسنل لائف میں بھی ہیرو تھا کہ جمناسٹک کا بھی چیمپئن تھا

یہ اسامہ تھا جس نے کنگ عبد العزیز یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی امریکہ اور برطانیہ سے جدید علوم حاصل کئیے

یہ اسامہ ہی تھا جو کہ کالج کے وقفہ کے اوقات میں بھی قرآن کریم کی تفسیر اٹھائے کسی استاد کے ساتھ بیٹھا ہوتا تھا

یہ اسامہ ہی تھا جو کہ پانچ وقت کا نمازی تھا

یہ اسامہ ہی تھا جو کہ پیر اور جمعرات کے روزے رکھنے کا پابند تھا

یہ اسامہ ہی تھا جس نے بلوغت کے بعد کبھی تہجد کی نماز قضا نہیں کی

قرآن سے محبت، صلہ رحمی ، دینی احکام پر پابندی ، نے اسامہ کو اپنے والد کے سب سے قریب کردیا

پھر وہ وقت بھی آیا کہ جب اسامہ اپنے والد کے ساتھ صبح کی نماز حرم مکہ میں بیت اللہ شریف کے سامنے ادا کرتا
اسی دن کی عصر کی نماز مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ادا ہوتی اور پھر اسی دن عشاء کی نماز "مسجد اقصی بیت المقدس " میں ادا کی جاتی تھی

زندگی کی ایک لمبی روٹین نے اسامہ کے دل میں مسجد اقصی سے نہایت ہی محبت پیدا کردی وہ جب مسجد اقصی جاتا تو دیکھتا تھا کہ شاید یہ مکان تھا جہاں سے امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ فتح کے وقت داخل ہوئے تھے وہ دیکھتا تھا کہ کہاں اسلام کا عظیم سپہ سالار سلطان صلاح الدین ایوبی اپنا خیمہ لگاتا ہوگا

مسجد حرام بیت اللہ ' مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسجد اقصی سے اسامہ کی محبت نے دنیا کی تمام لذتوں کو مار دیا

وہ جینا چاہتا تھا تو اس لیے کہ "محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم " کے دین کے چرچے ہوں وہ مرنا چاہتا تھا تو صرف شہادت کی موت مرنا چاہتا تھا

مسجد اقصی پر اسرائیلی قبضے نے اسامہ کے دل و دماغ کو شدید ضرب لگائی اور پھر مخملی بستروں اور ریشم کی چادروں پر پلنے والا اس افغانستان کی طرف دیکھنے لگا جہاں سے ایک بار پھر اسلامی عظمتوں کی خوشبوئیں پھوٹنا شروع ہوئی

اس نے سونے چاندی کو چھوڑ دیا اس نے لگژری زندگی کو چھوڑ دیا اس نے دنیا کی مہنگی ترین گاڑیاں بھی چھوڑ دیں وہ چل پڑا اس منزل کی طرف جس کی طرف کبھی حضرت خالد بن ولید چلے تھے

وہ چل پڑا تھا اس راستے پر جسے کانٹوں کا راستہ کہا جاتا ہے لیکن عزم و ہمت کے اس پیکر نے کبھی جرات و بہادری کا دامن نہیں چھوڑا

جو کبھی مخملی بستروں پر سوتا تھا وہ تورابورا کے پہاڑوں میں آسویا

جو چاہتا تو سونے چاندی کے برتنوں میں کھا سکتا تھا لیکن اس نے چار کھجوروں کو اپنے پانچ ساتھیوں میں تقسیم کر کے گزارا کیا

جو چاہتا تو بی ایم ڈبلیو اور رولز رائس جیسی گاڑیوں میں گھوم سکتا تھا لیکن اس نے افغانستان اور پاکستان کے سنگلاخ پہاڑوں کے غاروں میں پیدل چلنے کو ترجیح دی

وہ امت مسلمہ کے دلوں کی دھڑکن بنا وہ فخر کی اس میراث کا تنہا جانشین بنا جس کی ہوا بھی کبھی کسی شہری یا دیہاتی کے نصیب میں نہیں آئی

وہ دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کے لیے امید کی ایک کرن بنا

وہ دنیا بھر کی مظلوم مسلمان عورتوں کی عزتوں اور عصمتوں کا محافظ بن کر سامنے آیا

لیکن افسوس ان لوگوں پر جنہوں نے غیروں کے کہنے پر اسے دھشت گرد کہا

اس سے ہر کسی نے دشمنی نبھائی اپنوں نے اس کی نیشنلٹی منسوخ کی لیکن وہ جانتے نہیں تھے کہ رب کائنات سے اس نے پہلی ہی ایک نیشنلٹی لے رکھی ہے اور وہ ہے "ھو سمکم المسلمین"

غیروں نے بھی دشمنیاں بنائیں جس سوڈان میں اس نے معاشی ترقی کے پہاڑ کھڑے کئیے وہ بھی جھک گیا اور اسے اپنے وطن سے نکال دیا گیا

ملک جھک گئے، ریاستیں جھک گئیں، بادشاہ جھک گئے، سیاستدان جھک گئے

لیکن وہ ڈٹا رہا

اسامہ نے اپنی زندگی میں سوڈان" افغانستان" پاکستان "بوسنیا" اور دنیا کے ہر کونے خطے میں مجاہدین اسلام کو امداد بھیجی وہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن بنا

کسی نے اسے دھشت گرد کہا کسی نے اسے ایجنٹ کہا لیکن وہ اپنے کاز اور اپنے مشن پر ڈٹا رہا دنیا کا کوئی بھی فرد چاہے لاکھ باتیں کرے لیکن کوئی بھی اس پر کوئی عیب نہیں لگا سکتا سوائے اس کے کہ وہ "غیرت مند" تھا عزت کی زندگی جینے کے بعد اس نے کسی کا پالتو جانور بننے سے انکار کردیا تھا

اسامہ کون ہے یا اسامہ کون تھا یہ ایک ایسا سوال ہے جو کہ دنیا میں سب سی زیادہ پوچھا گیا لیکن صرف اپنے نہیں غیروں نے بھی گواہی دی کہ وہ صرف ایک غیرت مند مسلمان تھا جس نے دین محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اپنی زندگی قدم قدم پر قربان کردی

 جب پاکستان کے نامور صحافی حامد میر سے پوچھا گیا کہ اسامہ کون ہے تو وہ بھی بول اٹھا کہ میں جس اسامہ کو جانتا ہوں وہ پانچ وقت اور حتی کہ تہجد کا بھی پابند ہے میں جس اسامہ کو جانتا ہوں وہ ہے جس کے سامنے جب مسجد اقصی یا مسجد نبوی کا نام لیا جائے تو اس کی آنکھیں چھلک پڑتی ہیں۔

 اسامہ نے شورشرابے اور ذلت و پستی کی محفلیں نہیں جمائیں بلکہ وہ ایک مرد جری بن کر میدان میں کھڑا رہا رب کے احکامات کے فرمانبرداری میں اس نے یہاں تک کہ دیا تھا کہ وہ اپنی زندگی میں سب دروازے بند کرچکا ہے صرف ایک دروازہ کھلا ہے جسے شہادت کا دروازہ کہا جاتا ہے

پوری دنیا کی فوج اور چالیس سے زیادہ ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیز اسے ڈھونڈتی رہیں لیکن رب اسے بچانے کے انتظامات کرتا رہا لیکن یاد رکھنا رب کائنات بھی دیکھتا ہے کہ کتنا ان لوگوں نے کفران نعمت کیا بالآخر وہ وقت آیا جب رب نے اسے اس ذلیل دنیا سے اپنے پاس بلانے کا فیصلہ کر لیا

آج ابو عبد اللہ ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن وہ دنیا کے کروڑوں مسلمانوں کے دلوں میں بستا وہ ہر اس دل کی صدا ہے جس کو حرم کعبہ مسجد نبوی اور مسجد اقصی سے محبت ہے

اسامہ آج بھی موجود ہے لیکن بس اپنے دل کی آنکھوں سے دیکھیے تو نظر آئے گا کہ وہ جنت کا شہزادہ اس وقت جنت میں موجود ہے اور کہہ رہا ہے کہ دیکھ لو دنیا والو!!!

"ولا تقولو لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات " کہ شہید ہمیشہ زندہ ہوا کرتا ہے کبھی مرا نہیں کرتا. #Paksoldier HAFEEZ

No comments:

Post a Comment