Tuesday, January 23, 2018

ایشیا میں گھمسان کی جنگ چھڑنے والی ہے

براعظم ایشیا کے حالات تیزی سے بدل رہے ہیں اگر یوں کہہ لیں کہ ایشیائی ممالک مغرب اور امریکہ کی غلامی سے نکل کر خود مختار ہونے جا رہے ہیں یا پھر امریکہ کو چھوڑ کر چین پر زیادہ انحصار کرنے لگے ہیں تو غلط نہ ہوگا، ایران اور پاکستان کی مثال آ پ کے سامنے ہے۔تیزی سے بدلتے حالات کو یوں بھی پرکھا جا سکتا ہے کہ روس جو کہ بھارت کا دیرینہ دوست تھا آج پاکستان چین ایران کے بلاک میں شامل ہوچکا ہے، جبکہ بھارت اس خطے میں سے اکیلا ہی امریکہ اور اسرائیل کے بلاک میں شامل ہے۔  بھارت جن ممالک میں گھرا ہوا ہے وہ سب ممالک بھارتی رویہ کی وجہ سے بھارت کو دشمن سمجھتے ہیں، وہ ممالک زیادہ تر چین پر انحصار کرتے ہیں، یوں بھارت اس خطے میں اکیلا رہ چکا ہے۔ آپ سب یہ بات نوٹ کر سکتے ہیں کہ بھارت اس خطے میں سے کسی بھی طاقتور ملک کو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں کر سکا، آخر کار افغانستان جیسا ملک ہی پیچھے بچا جو کہ بھارت کی چکنی چپڑی باتوں میں آگیا۔   پاکستان اس خطے کا اہم ترین ملک ہے، روسی تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان پر انحصار کرنا اس خطے کے ممالک کی مجبوری ہے، پاکستان کو ہلکا نہ لیا جائے پاکستان کے حالات بگڑنے سے پڑوسی ممالک پر بھی بہت برا اثر پڑے گا، اس کے علاوہ روسی دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان نہ صرف ایٹمی قوت ہے بلکہ ایک بڑی فوجی طاقت بھی رکھتا ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج جنگ کا بہترین تجربہ رکھتی ہیں لہذا پاکستان شمالی کوریا سے بھی زیادہ خطرناک ملک ہے۔
اس لیے ہم سب کو پاکستان کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا، جو ملک پاکستان پر طاقت کا استعمال کرے گا اسے اور اس خطے میں موجود دوسرے ممالک کو سخت نقصان پہنچے گا۔   روس دراصل پاکستان کو آزما چکا ہے افغانستان میں روس کو شدید نقصان پہنچا تھا۔ روس نے طاقت کے نشے میں گوادر پر قبضہ کرنا چاہا مگر ناکام رہا جب کہ چین نے دوستی کا ہاتھ بڑھا کر گوادر تک رسائی حاصل کی۔گوادر پورٹ سے دنیا کے تقریبا تمام ممالک فائدہ اٹھا سکیں گے، یہ منصوبہ جہاں تمام ممالک کو آپس میں ملاتا ہے    یا ایک دوسرے سے تجارت کرنے کے مواقع فراہم کرتا ہے وہیں بھارت کو مکمل طور پر تنہا بھی کر دے گا، اور اگر ایسا ہوگیا تو بھارت کے معاشی حالات بدتر ہو جائیں گے، کیونکہ تمام ممالک پاکستان پر انحصار کرنے لگیں گے۔  اور بھارت ایسا ہرگز نہیں ہونے دیگا چاہے بھارت کو جنگ ہی کیوں نہ کرنی پڑجائے جو کہ بھارت اب کرنے کے لئے پر تول رہا ہے،اور یہ سب بھارت امریکہ اور اسرائیل کی شہ پر کر رہا ہے۔اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ امریکہ اور اسرائیل بھارت کا ساتھ کیوں دیں گے، تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ گوادر کے ذریعے چین اگر تجارت کرتا ہے تو امریکہ کو قرضے شکل میں چین پیسہ دینا بند کر دے گا، اس کے علاوہ چین اور پاکستان ایک دوسرے پر انحصار کرنے لگیں گے، آنے والے وقتوں میں ایشیائی ممالک امریکہ کو چھوڑ کر چین سے ہتھیار خریدیں گے، کیونکہ چینی ساختہ ہتھیاروں کا معیار بہتر ہونے کے ساتھ ساتھ قیمت بھی خاصی کم ہوتی ہے اور فروخت کے بعد چین منٹیننس کی مد میں بھی بہتر سپورٹ کرتا ہے۔امریکہ کبھی نہیں چاہتا کہ دوسرے ممالک امریکہ کو چھوڑ کر چین سے ہتھیار خریدیں کیونکہ امریکہ کی اکانومی انہیں ہتھیاروں کے سر پر کھڑی ہے، امریکہ کے زیادہ تر کسٹمرز ایشیا میں ہیں جبکہ مغربی ممالک ترقی یافتہ ہیں اور ان کے اپنے دفاعی ادارے اور اسلحہ ساز فیکٹریاں ہیں۔ترکی بھی امریکہ کا اتحادی تھا مگر کچھ عرصہ سے ترکی اور امریکہ کے تعلقات بھی پہلے جیسے نہیں رہے، ترکی گوادر کے حق میں ہے اور پاکستان چین روس کے بلاک میں شامل ہوچکا ہے، حال ہی میں ترکی نے روس سے بڑے دفاعی معاہدے کئے ہیں جس کے بعد مغربی ممالک نے سخت ردعمل دیا۔دوسری طرف گریٹر اسرائیل کی منصوبہ بندی بھی جاری ہے اوراسی سلسلے میں پچھلے دنوں امریکہ نے ایک متنازعہ فیصلہ کیا، امریکہ کی طرف سے اسرائیل کا دارالخلافہ یروشلم میں بنانے کا فیصلہ کیا گیا، مگر پاکستان اور ترکی کی کاوشوں سے امریکہ کو اس فیصلے پر خوب ذلت اٹھانا پڑی، یہ بات سچ ہے کہ گریٹر اسرائیل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان ہے اور اسرائیل ہر صورت میں پاکستان کو ختم کرنا چاہتا ہے مگر اسرائیل یہ بھی جانتا ہے کہ وہ براہ راست پاکستان سے نہیں لڑسکتا، اور پاکستان کے ایک بیلسٹک میزائل کی مار ہے۔اسرائیل کو ہمیشہ سے ہی پاکستان کو تباہ کرنے کے لئے ایشیا میں ایک اتحادی ملک کی ضرورت تھی، اور اگر وہ ملک پہلے ہی پاکستان کا دشمن ہو تو یہ بات اسرائیل کے لیے سونے پر سہاگا تھی، لہذا اسرائیل پاکستان کے دشمن بھارت کے ساتھ ہے، یوں تینوں ممالک امریکہ ، اسرائیل اور بھارت اپنے اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے اکٹھے ہو چکے ہیں اور پاکستان اور چین کے خلاف منصوبہ بندی بھی کر چکے ہیں۔حال ہی میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے چیف کی بھارتی خفیہ ایجنسی را کے چیف سے خفیہ ملاقات ہوئی، جس کے بعد بھارتی آرمی چیف نے انتہائی خطرناک بیان دیا جس میں انہوں نے کہا کہ بھارت پاکستان اور چین سے ایک ساتھ لڑ سکتا ہے، جبکہ بھارت کی یہی آرمی چند مہینے پہلے اپنی حکومت کو باور کروا چکی ہے کہ ہم ایک ہی وقت میں چین اور پاکستان سے نہیں لڑ سکتے، بھارتی آرمی چیف کے بیان کے بعد اسرائیلی وزیراعظم کا دورہ بھارت بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی سمجھا جا رہا ہے۔اسرائیلی وزیراعظم کے اس دورے کے دوران ہی بھارت نے 5000 ہزار کلومیٹر تک مار کرنے والا بیلسٹک میزائل اگنی 5 کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔یہ میزائل خاص طور پر چین کو نشانہ بنانے کے لیے تیار کیا گیا ہے، اس میزائل کی رینج میں چین کا ہر شہر آتا ہے۔ یوں بھارت نے اس موقع پر چین کو ایک خاص پیغام دیا ہے کہ ہم اگر پاکستان پر حملہ کرتے ہیں تو چین در اندازی سے باز رہے ورنہ وہ بھارتی میزائلوں سے نہیں بچ سکتا۔بھارت کی یہ بچگانہ سوچ ایک طرف مگر دنیا جانتی ہے کہ چین کے پاس سات ہزار سے لے کر سولہ ہزار کلومیٹر تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل موجود ہیں، چین امریکی ایئر کرافٹ کیریئرز کو تباہ کرنے کے لئے بہترین بیلسٹک میزائل بھی تیار کرچکا ہے۔پاکستان کی فوجی قیادت کو پتہ ہے کہ حالات خراب ہونے والے ہیں کسی بھی وقت دشمن ہمیں للکار سکتا ہے، لہذا پاکستان نے ایران کو بھی اس معاملے سے آگاہ کردیا ہے، پچھلے دنوں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا دورہ ایران اسی سلسلہ کی کڑی تھی، اور الحمداللہ ایران پوری طرح دشمن کی پلاننگ سمجھ چکا ہے،ایران نے پاکستان سے تعلقات کو فروغ دینا شروع کردیا ہے اور اس کی شروعات پاکستان ایران کے درمیان مسافر ٹرین چلا کر کی گئی۔لہٰذا اس خطے کے اہم ترین ملک یعنی پاکستان پر حملہ کیا گیا تو امریکہ اور اسرائیل تو اس کا مزہ چکھ ہی لیں گے مگر بھارت کے ساتھ جو حشر ہوگا وہ دنیا دیکھے گی، اسرائیل اور امریکہ بھارت کو تھپکیاں تو دے رہے ہیں مگر وہ دونوں ممالک کسی صورت براہ راست جنگ کا حصہ نہیں بن سکتے، بھلا یہ کیسے ھوسکتا ھے کہ پاکستان اور چین پر حملہ ہو اور روس تماشائی بنا دیکھتا رہے؟ ایک بھی ایٹمی میزائل کے چلنے پر اس پورے خطے کے ممالک پر اثر پڑے گا اور اگر ایسا ہوا تو روس بھی امریکہ کے خلاف اپنا حصہ ضرور ڈالے گا۔ باقی رہی شمالی کوریا اور ایران کی بات تو وہ ممالک بھی امریکہ کے رویے سے سخت دلبرداشتہ ہیں اور وہ بھی حسب توفیق اپنا حصہ ضرور ڈالیں گے۔

No comments:

Post a Comment