کے متعلق اکثر مفسرین کا خیال ہے کہ یہ جنت سے ہی حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ ہی زمین پر اتارا گیا۔
۔۔۔
یہ تابوت شمشاد کی لکڑی کا ایک صندوق تھا یہ حضرت آدم علیہ السلام کی آخرِ زندگی تک آپ کے پاس ہی رہا۔ پھر بطور میراث یکے بعد دیگرے آپ کی اولاد کو ملتا رہا۔ یہاں تک کہ یہ حضرت یعقوب علیہ السلام کو ملا اور آپ کے بعد آپ کی اولاد بنی اسرائیل کے قبضے میں رہا۔
اورجب یہ صندوق حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مل گیا تو آپ اس میں توراۃ شریف اور اپنا خاص خاص سامان رکھنے لگے۔ یہ بڑا ہی #_مقدس اور #_بابرکت_صندوق تھا۔
بنی اسرائیل جب کفار سے جہاد کرتے تھے اور کفار کے لشکروں کی کثرت اور ان کی شوکت دیکھ کر سہم جاتے اور ان کے سینوں میں دل دھڑکنے لگتے تو وہ اس صندوق کو اپنے آگے رکھ لیتے تھے تو اس صندوق سے ایسی رحمتوں اور برکتوں کا ظہور ہوتا تھا کہ مجاہدین کے دلوں میں سکون و اطمینان کا سامان پیدا ہوجاتا تھا اور مجاہدین کے سینوں میں لرزتے ہوئے دل پتھر کی چٹانوں سے زیادہ مضبوط ہوجاتے تھے۔ اورجس قدر صندوق آگے بڑھتا تھا آسمان سے نَصْرٌ مِّنَ اللہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ کی بشارت عظمیٰ نازل ہوا کرتی اور فتح مبین حاصل ہوجایا کرتی تھی۔
بنی اسرائیل میں جب کوئی اختلاف پیدا ہوتا تھا تو لوگ اسی صندوق سے فیصلہ کراتے تھے۔ صندوق سے فیصلہ کی آواز اور فتح کی بشارت سنی جاتی تھی۔ بنی اسرائیل اس صندوق کو اپنے آگے رکھ کر اور اس کو وسیلہ بنا کر دعائیں مانگتے تھے تو ان کی دعائیں مقبول ہوتی تھیں اور بلاؤں کی مصیبتیں اور وباؤں کی آفتیں ٹل جایا کرتی تھیں۔ الغرض یہ صندوق بنی اسرائیل کے لئے تابوتِ سکینہ، برکت و رحمت کا خزینہ اور نصرتِ خداوندی کے نزول کا نہایت مقدس اور بہترین ذریعہ تھا۔
مگر جب بنی اسرائیل طرح طرح کے گناہوں میں ملوث ہوگئے اور ان لوگوں میں معاصی و طغیان اور سرکشی و عصیان کا دور دورہ ہو گیا تو ان کی بداعمالیوں کی نحوست سے ان پر خدا کا یہ غضب نازل ہوگیا کہ قوم عمالقہ کے کفار نے ایک لشکر جرار کے ساتھ ان لوگوں پر حملہ کردیا، ان کافروں نے بنی اسرائیل کا قتل عام کر کے ان کی بستیوں کو تاخت و تاراج کر ڈالا۔
عمارتوں کو توڑ پھوڑ کر سارے شہر کو تہس نہس کرڈالا، اور اس متبرک صندوق کو بھی اٹھا کر لے گئے۔ اس مقدس تبرک کو نجاستوں کے کوڑے خانہ میں پھینک دیا۔ لیکن اس بے ادبی کا قوم عمالقہ پر یہ وبال پڑا کہ یہ لوگ طرح طرح کی بیماریوں اور بلاؤں مبتلا کر دیئے گئے۔ چنانچہ قوم عمالقہ کے پانچ شہر بالکل برباد اور ویران ہو گئے۔
یہاں تک کہ ان کافروں کو یقین ہو گیا کہ یہ #_صندوق_رحمت کی بے ادبی کا عذاب ہم پر پڑ گیا ہے تو ان کافروں کی آنکھیں کھل گئیں۔ چنانچہ ان لوگوں نے اس مقدس صندوق کو ایک بیل گاڑی پر لاد کر بیلوں کو بنی اسرائیل کی بستیوں کی طرف ہانک دیا۔
پھر اللہ تعالیٰ نے چار فرشتوں کو مقرر فرما دیا جو اس مبارک صندوق کو بنی اسرائیل کے نبی حضرت شمویل علیہ السلام کی خدمت میں لائے۔ اس طرح پھر بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی نعمت دوبارہ ان کو مل گئی۔
اور یہ صندوق ٹھیک اس وقت حضرت شمویل علیہ السلام کے پاس پہنچا، جب کہ حضرت شمویل علیہ السلام نے طالوت کو بادشاہ بنا دیا تھا۔ اور بنی اسرائیل طالوت کی بادشاہی تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھے اور یہی شرط ٹھہری تھی کہ مقدس صندوق آجائے تو ہم طالوت کی بادشاہی تسلیم کرلیں گے۔ چنانچہ صندوق آگیا اور بنی اسرائیل طالوت کی بادشاہی پر رضامند ہو گئے۔
(تفسیر الصاوی،ج۱،ص۲۰۹۔تفسیر روح البیان،ج۱، ص۳۸۵۔پ۲، البقرۃ۲۴۷)
قرآن مجید میں خداوند قدوس نے #_سورہ_بقرہ میں اس مقدس صندوق کا تذکرہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:۔
#_ترجمہ
اور ان سے ان کے نبی نے فرمایا اس کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے کہ آئے تمہارے پاس تابوت جس میں تمہارے رب کی طرف سے دلوں کا چین ہے اور کچھ بچی ہوئی چیزیں ہیں معزز موسیٰ اور معزز ہارون کے ترکہ کی، اٹھاتے لائیں گے اسے فرشتے بیشک اس میں بڑی نشانی ہے تمہارے لئے اگر ایمان رکھتے ہو۔
(پ2،البقرۃ:248)
#_تابوتِ_سکینہ_میں_کیا_تھا۔۔؟
اس مقدس صندوق میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا اور ان کی مقدس جوتیاں اور حضرت ہارون علیہ السلام کا عمامہ، حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی، توراۃ کی تختیوں کے چند ٹکڑے، کچھ من و سلویٰ، اس کے علاوہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی صورتوں کے حلیے وغیرہ سب سامان تھے۔
(تفسیر روح البیان،ج۱،ص۳۸۶،پ۲،البقرۃ: ۲۴۸)
#_ہیکل_سلیمانی
حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانے تک اس تابوت کو رکھنے کے لئے کوئی خاص انتظام نہیں تھا اور اسکے لئے پڑاؤ کی جگہ پر ایک الگ خیمہ لگا دیا جاتا تھا- حضرت داؤد علیہ السلام نے خدا کے حکم سے خدا کا گھر بنانا شروع کیا جو عین اس مقام پر ہے جہاں آج مسجد اقصیٰ موجود ہے-لیکن یہ عالی شان گھر آپ کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام کے عہد میں مکمل ہوا اور اسکو یہودی ہیکل سلیمانی کے نام سے پکارتے ہیں۔
اس گھر کی تعمیر کے بعد تابوت سکینہ کو یہاں پورے احترام کے ساتھ رکھ دیا گیا- اور اس طرح یہ مقام یہودیوں کا مقدس ترین مقام بن گیا - بعد کے زمانے میں ہونے والی جنگوں نے اس ہیکل کو بہت نقصان پہنچایا لیکن بابل کے بادشاہ بخت نصر نے اس کو مکمل طور پر تباہ کر دیا اور اسکو آگ لگا دی ، وہ یہاں سے مال غنیمت کے ساتھ ساتھ تابوت سکینہ بھی لے گیا تھا- اس تباہی کے نتیجے میں آج اصلی ہیکل کی کوئی چیز باقی نہیں ہے۔
#_تابوت_سکینہ_کہاں_ہے۔۔؟
ان تمام تباہیوں کے نتیجے میں تابوت سکینہ کہیں غائب ہو گیا اور اسکا کوئی نشان نہیں ملا- آج بھی بہت سارے ماہر آثار قدیمہ اور خصوصا"یہودی مذہب سے تعلق رکھنے والے ماہر اسکی تلاش میں سرگرداں ہیں تاکہ اسکو ڈھونڈ کر وہ اپنی اسی روحانیت کو واپس پا سکیں جو کبھی ان کو عطا کی گئی تھی۔
تابوت سکینہ کی موجودہ جگہ کے بارے میں مختلف لوگ قیاس آرائیاں کرتے رہتے ہیں ۔ اس پر انگریز عیسائیوں اور یہودیوں نے بڑی ریسرچ کیں ہیں۔ لیکن حتمی طور پر سارے ایک نقطے پر متفق نہیں ہوسکے۔
لیکن مجھے جو سب سے قرین قیاس تھیوری لگتی ہے وہ یہ کہ اس وقت یہ صندوق یا تابوت حضرت سلیمان علیہ السلام کے محل میں کہیں دفن ہے۔ جو فلسطین میں آج بھی گم ہے جس کو یہودی کافی عرصے سے ڈھونڈنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اور آئے دن وہاں بیت المقدس میں کھدائی کرتے رہتے ہیں۔ یہ وہ ہی محل ہے جس کو حضر ت سلیمان علیہ السلام نے جنات کی مدد سے بنایا تھا۔
اس کی بنیادوں کو آج بھی ڈھونڈنے کی کوشش کی جارہی ہیں۔ جس کو ہیکل سلیمانی بھی کہتے ہیں۔ یہ تھیوری بائبل کے ماہر آثار قدیمہ ریٹمیر مارشل نے 1996 میں پیش کی تھی۔ اس نے اس کے بارے بہت سے دلائل بھی دئیے ہیں۔ جن کو آپ انٹرنیٹ پر باآسانی تلاش کرکے پڑھ سکتے ہیں۔
بہرحال اس کے متعلق بہت سے نظریات ہیں اور میرا بھی یہ ہی خیال ہے کہ یہ تابوت اب بھی حضر ت سلیمان علیہ السلام کے محل کے اندر ہی کہیں دفن ہے۔
اس تابوت کے بارے کچھ اور مشہور قیاس آرائیوں کے بارے بھی اپنے دوستوں کو بتاتے ہیں۔
کچھ تاریخ دانوں کے نزدیک اس کو افریقہ لے جایا گیا۔جہاں ایتھوپیا میں ایک تاریخی چرچ ایکسم کے اندر یہ تابوت موجود ہے۔ جس کی تصاویر بھی موجود ہیں۔ لیکن یہودی پادری اس کو نہیں مانتے۔
کچھ لوگوں نے تجویز کیا ہے کہ سوروگی جاپان کے پہاڑوں میں اس تابوت کو ایک بادشاہ نے دفن کروا دیا تھا۔ جس کو جاپانی ماہر آثار قدیمہ تاکانے ماثانوری نے کافی تلاش کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔
ایک مشہور ماہر آثار قدیمہ ران وائٹ کا کہنا ہے کہ یہ مشرق وسطیٰ عرب ممالک میں موجود ہے۔
کچھ لوگوں کے مطابق اسکو ڈھونڈنے کی کوشش انگلینڈ کے علاقے میں کرنی چاہیے۔
کچھ تاریخ دان سکاٹ لینڈ کے ایک علاقےکی طرف نشاندہی کرتے نظر آتے ہیں۔
ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ یہ آرک (تابوت) اس وقت دنیا میں موجود نہیں ۔ اس کو خدا نے انسان کی بداعمالیوں کی وجہ سے آسمان پر واپس اٹھا لیا ہے۔
ایک اور نظریہ ہے کہ یہ بحیرہ مردار کے قریب ایک غار کے اندر کہیں گم ہو چکا ہے۔ جبکہ اس غار کی تلاش میں کئی جگہوں پر کھدائی بھی کی گئی ہے۔
اور ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ یہودیوں نے 1981 میں اسے حضرت سلیمان علیہ السلام کے پہلے محل سے کھدائی کے دوران نکال کر کہیں نامعلوم جگہ پر منتقل کردیا ہے۔جبکہ یہودیوں پادریوں نے اس بارے کبھی تصدیق نہیں کی۔
کچھ کھدائی کرنے والے یہودیوں کا کہنا تھا۔
کہ وہ اس صندوق اور ہیکل سلیمانی دوئم کی بنیادوں کے بالکل قریب پہنچ گئے تھے۔ لیکن اسرائیلی گورنمنٹ نے عرب مسلمانوں کے پریشر میں آکر اس کی کھدائی پر پابندی لگا دی تھی۔ اور ان کو کھدائی کا کام نامکمل چھوڑنا پڑا۔
بہرحال کوششیں جاری ہیں لیکن تاحال انہیں ناکامی کا سامنا ہے۔ اور حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ تابوت کہاں ہے۔
جس دن یہ Ark of Covenant (تابوتِ سکینہ) دنیا پر ظاہر ہوگیا اس دن شعبہ Archaeologist کے لئے بڑی کامیابی ہوگی۔
No comments:
Post a Comment