Tuesday, January 30, 2018

عرب اسرائیل جنگ اور پاک افواج


پاک_افواج کس طرح عربوں کی حفاظت کی !! ۔۔۔ 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ میں پاکستان نے خفیہ طور پر حصہ لیا تھا ۔اس میں ایس ایس جی کمانڈوز کے 200 جوان، ایک بریگیڈ نفری 5000 فوجی، ائیرفورس کے تقریباً دو اسکوارڈن شامل تھے۔پہلے دشمن کی دفاعی تیاریوں کو سمجھنا ضروری ہے۔ اسرائیل نے نہر سویز کے کنارے پر دنیا کا جو مضبوط ترین دفاعی نظام تیار کیا تھا اس کو بارلیف کا نام دیا گیا، یہ ریت کی ستر فٹ اونچی دیوار کنکریٹ کے پشتے سے کھڑی کی گئی تھی، اس کے ساتھ پیچھے مضبوط قلعہ بندیاں جن میں ہر سومیٹر کے فاصلے پر ایک پلاٹون (28 فوجی) موجود رہتے پھر ان قلعہ بندیوں کے اردگرد بارودی سرنگیں اور کانٹےدار تار کا علاقہ اور ساتھ ہی لوہے کے بنکروں میں ہیوی مشین گنیں نصب تھیں۔اس کے علاوہ فرنٹ لائن سے پانچ چھ سو میٹر پیچھے ٹینکوں کے فائر کرنے کی پوزیشنیں بنائی گئیں اور چند کلومیٹر پیچھے فیلڈ آرٹلری اور اینٹی ٹینک ہتھیاروں کے مورچے تھے، نہر سویز کو مزید مشکل بنانے کے لیے پانی میں پمپ داخل کیے گئے جس میں کسی بھی وقت تیل بھر کر بھیجا جاسکتا تھا تاکہ پانی میں آگ لگائی جاسکے اس کے علاوہ پورے صحرائے سینا میں سڑکوں کا جال بچھایا گیا تھا ان کے خیال میں اس سے زیادہ مضبوط ڈیفنس آج تک کسی نے نہیں بنایا تھا۔ اس جنگ میں شام اور مصر نے 1967ء کی جنگ کا بدلہ لینے کا پروگرام بنایا تھا ۔ پاکستان ائیرفورس کے جہازوں نے مصر کا اندرونی دفاع سنبھالا ہوا تھا۔ ایس ایس جی کے دو سو جوان جنرل ٹکا خان کی سرکردگی میں 5 اکتوبر 1973ء کو نہر سویز کے کنارے پر تیار کھڑے تھے ۔صبح سویرے مصر کی راکٹ یونٹوں اور دو ہزار سے زائد توپوں نے اسرائیلی مورچوں پر گولہ باری شروع کی۔ اس کور فائر کی آڑ میں ایس ایس جی کے جوان موٹربوٹ کے ذریعے نہر سویز پار کرنا شروع ہوئے۔ دشمن کی فائرنگ لائن کے سامنے سے اور پانی سے لڑتے ہوئے گزرنا ، ہوائی جہازوں کی بمباری اور پانی میں تیل کی آگ نے ماحول کو انتہائی ہولناک بنادیا تھا۔ کئی جوان پانی میں شہید ہوگئے جو پار نکل جاتے وہ دشمن کے مورچوں پر کس طرح حملہ آور ہوتے ان کو دیکھنے والا کوئی نہیں تھا۔صرف اکیلی خدا کی ذات ان کو دیکھ رہی تھی۔ انہوں نے یقینی موت کے سامنے ہوکر جنگ کی، تقریباً سبھی جوان شہید ہوگئے لیکن مضبوط ترین دفاعی نظام روئی کے گالے بن کر اڑ گیا۔دوسو جوانوں میں سے صرف دو جوان زندہ بچے لیکن دشمن کا چار سے پانچ کلو میٹر کا فرنٹ خالی کرالیا تب مصری فوج نے نہر سویز پر تیزی سے پُل بنایا اور صحرائے سینا میں داخل ہوگئی۔ دوسری طرف شام کے محاذ پر اسرائیلی بڑھتے بڑھتے دمشق کے قریب پہنچ گئے تھے لڑائی کا آٹھواں دن اور وہ دمشق سے صرف 25 میل دور تھے۔ پاکستان کا بریگیڈ جو ابھی تک اردن میں تعینات تھا اردن حکومت کے جنگ میں حصہ نہ لینے کی وجہ سے رُکا ہوا تھا۔ شام کے نازک حالات کو دیکھتے ہوئے اور اردن حکومت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بریگیڈ کو وہاں سے نکال کر دمشق کے دفاع پر لگادیا گیا تو اس کے نتیجے میں اسرائیل کی نہ صرف پیش قدمی رک گئی بلکہ ان کو گولان ہائیٹ تک دھکیل دیا گیا۔ اس دوران کئی دفعہ بریگیڈ کو دست بدست جنگ کی نوبت آئی۔ پاکستان ائیرفورس سے مصر کا اندرونی دفاع کرتے ہوئے اسرائیل کے کم از کم پانچ جہازوں کو مار گرایا۔ اس میں فلائٹ فائٹر ستار علوی کا نام قابل ذکر ہے اور پاکستان کے ایک جہاز کا بھی نقصان نہیں ہوا۔ پاک فوج کی قلیل تعداد نے مصر اور شام کو شکست سے بچایا۔

No comments:

Post a Comment