Wednesday, February 07, 2018
پاکستان کا جنگی جوہری (نظریہ) ڈاکٹرائن
پاک-بھارت افواج کے مابین حالیہ لفظی جنگ دونوں جوہری طاقتوں کے بیچ بڑھتی دشمنی کو ظاہر کرتی ہے اور اس میں مزید اضافے کا پتہ دیتی ہے۔بھارتی آرمی چیف بپن راوت نے سالانہ آرمی ڈے پر لیکچر دیتے ہوئے کہا “اگر ہمیں واقعتاً پاکستان کا سامنا کرنا ہے اور ہمیں کوئی منصوبہ دیا جاتا ہے تو ہم یہ نہیں کہیں گے کہ ہم پاکستانی سرحد پار اس لئے نہیں کر رہے کہ چونکہ اُن کے پاس جوہری ہتھیار ہیں۔ ہمیں اُنکے جوہری فریب کا پول کھولنا ہو گا”۔ توقعات کے مطابق پاکستانی فوج کے ترجمان آصف غفور نے جواباً کہا “یہ اُنکی مرضی ہے، اگر وہ ہمارے عزم کو ٓازمانا چاہتے ہیں تو ٓازما کر دیکھ لیں۔جو چیز انکو روک رہی ہے وہ ہمارا قابلِ اعتبار جوہری ڈیٹرنس ہے، کیونکہ دونوں جوہری ممالک کے بیچ جنگ کی کوئی گنجائش نہیں”۔ بھارتی اشتعال انگیزی اور پھر پاکستانی جواب پر علاقائی ماہرین خاصے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔ ایک خاص وجہ ہے جس کی بدولت پاکستان اور بھارت کے سکیورٹی پالیسی ساز اور پالیسی پر عمل درآمد کرنے والوں کے سخت بیانات بحران اور عدم استحکام کا باعث بن سکتے ہیں اور وہ وجہ ہے پاکستان کا مبہم جوہری تھریش ہولڈ۔ لیکن اپنے ازلی دشمن بھارت کی جنگجوئی اور بدلتے ہوئے خطرات کو دیکھتے ہوئے پاکستان کو یہ جواز ملتا ہے کہ وہ اپنے جنگی جوہری ڈاکٹرئن (نظریے) پر کام کی رفتار میں تیزی لائے۔۱۹۹۸ میں جنوبی ایشیا میں جوہری ہتھیارات ٓا جانے کے بعد پاکستان اور بھارت کے بیچ مسئلہ کشمیر کی مسلسل موجودگی کی وجہ سے اس خطے کو نقطہ اشتعال سمھجا جاتا ہے۔ تاہم برنارڈ بروڈی کے بقول “ایبسولوٹ ویپن“ (مطلق/مکمل ہتھیاروں) نے دونوں ممالک کے بیچ محدود لڑائیوں کو ایک وسیع پیمانے کی لڑائی یا تنازعہ میں ڈھل جانے سے روکا ہے۔ مشتعل لائن آف کنٹرول یا ورکنگ باؤنڈری تزویراتی ڈیٹرنس کے ناکام ہونے کی طرف اشارہ ہر گز نہیں ہے بلکہ سرحدی جھگڑے یہ بتاتے ہیں کہ دونوں ملکوں کی فوجیں جوہری تصادم کے بجائے اس سے کم نوعیت کی لڑائی میں بھی ملوث ہو سکتے ہیں۔ &nbs
p; یہ امر ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم جوہری تھریش ہولڈ کو پرکھیں۔ جہاں بھارت کے جوہری ڈاکٹرئن پر محض سرسری نظر سے ہی اُس کے (جوہری ہتھیاروں کو) پہلے استعمال نہ کرنے کا اشارہ ملتا ہے وہیں پاکستان کے جوہری ڈاکٹرائن میں ابہام پایا جاتا ہے۔ ایک کمزور ریاست ہونے کے باعث جس کی سکیورٹی ساخت ۱۹۷۱ میں پاک-بھارت جنگ سے متاثر ہوئی، پاکستان نے ڈیٹرنس کی حکمتِ عملی اپنائی تاہم ابہام کے ساتھ۔ پاکستان کے سابقہ آرمی چیف مرزا اسلم بیگ ڈیٹرنس کو بڑھانے کےلئے ابہام کی پالیسی اپنانے کے بڑے حامی تھے۔ ابہام کی پالیسی دانوں ملکوں کے اعلانیہ جوہری ہونے کے سے پہلے بھی کامیاب رہی۔ کے سندر جی کے آپریشن براس ٹیکس اور ۱۹۹۰ کا تعطل بھی اسی پالیسی کی وجہ سے ممکن ہو سکا تھا۔ اسی طرح کارگل کے معاملے نے بھی ایک ایسے وقت میں سر اٹھایا تھا جب دونوں ملک نئے نئے جوہری ریاست بنے تھے۔ یہ قابلِ فہم ہے کہ معاملات سخت کشیدگی کی طرف اس لئے نہ گئے کہ دونوں ملک جوہری ابہام کی پالیسی پر کارفرما تھے کیونکہ دونوں نے اپنے جوہری نظرئے (ڈاکٹرائن) کا باقاعدہ اعلان بھی نہیں کرکھا تھا۔ عالمی برادری نے بھی ۲۰۰۱/۲۰۰۲ میں جوہری جنگ چھڑ جانے کے خطرے کے پیشِ نظر معاملات کو جلد رفع دفع کرنے میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔ پاکستان ، جو نسبتاً زیادہ خطروں سے دوچار ہے، اپنے محدود وسائل اور علاقے کے باعث اسی بات پر راضی تھا کہ دشمن اس کی قوت کے بارے میں اندازے لگاتا رہے۔
سٹریٹیجک پلانز ڈویژن کے سابقہ روحِ رواں لیفٹیننٹ جنرل خالد قدوائی کا کہنا ہے کہ پاکستان جوہری ہتھیاروں کا استعمال چار صورتوں میں کرے گا؛ اپنا وسیع علاقہ کھو دینے کی صورت میں (سپیس تھریش ہولڈ)، زمینی و فضائی طاقت کے وسیع نقصان کی صورت میں (ملٹری تھریش ہولڈ)، معاشی گھٹن کی صورت میں (معاشی تھریش ہولڈ) یا پھر وسیع تر اندرونی اکھاڑ پچھاڑ کی صورت میں (سیاسی تھریش ہولڈ )۔ یہ آخری حدیں مکمل طور پر بیان نہیں کی گئی ہیں اور کسی تنازعہ کی صورت میں عین ممکن ہے کہ زمینی حالات دیکھتے ہوئے ردِ عمل دینے کی شدت میں کمی لائی جائے۔ بھارت کے کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن کی یہ خواہش ہے کہ وہ پاکستان کے سپیس اور ملٹری تھریش ہولڈ تک پہنچے۔ کولڈ سٹارٹ کا مطلب ہے مشکل سےتیز تر متحرک ہونے کی بجائے آٹھ(۸) انٹیگریٹڈ بیٹل گروپس یا آئی-بی-جیز (ضم شدہ جنگی گروہ) کی تشکیل ہے جو پاکستان میں کئی طرح سے داخل ہو کر ضرب لگا سکیں۔ پھر فضائی مدد سے یہ آئی-بی-جیز گولہ باری یا دھاوا بول دیں اور باقی (تھری کور) دفاعی پوزیشن اختیار کر لیں۔ جبکہ جوابی جوہری کاروائی سے بچنے کے لئے بھارتی فورسز پاکستان کے اندر ۵۰ سے ۸۰ کلومیٹر تک کا علاقے پر قابض ہو جائیں۔ پس تزویراتی ڈیٹرنس کے رِسک پر منحصر ہو نے کے باوجود ٹیکٹیکل (لمبی مار) جوہری ہتھیار پاکستان کو توانائی بخشتے ہیں۔ اس تناظر میں یہ بتانا قابلِ ذکر ہو گا کہ پاکستان کے اندر دہشت گردوں کے مبینہ کیمپس پر بھارتی فضائی حملے ایک زبردست جواب دیکھیں گے۔ کچھ مہینے پہلے بھارتی ائیر چیف بی–ایس دھنوا نے کہا “انڈین ائیر فورس کے پاس ڈھونڈنے، معاملہ نمٹانے اور حملہ کرنے کی صلاحیت ہے۔ اور یہ صلاحیت صرف ٹیکٹیکل ہتھیاروں کےلئے نہیں بلکہ سرحد پار دیگر اہداف کےلئے (بھی) ہے”۔ لیکن جیسا کہ میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ پاکستان بھارتی فضائی حملے کو محدود ، جائز اور تنازعہ کو ختم کرنے کی نظر سےنہیں دیکھے گا۔ بھارتی حملہ پاکستانی جواب بھی دیکھے گا چونکہ یہاں بات خود مختاری کی آجاتی ہے۔ اگرچہ بھارت نے محض محدود حملے کا سوچا ہو لیکن بات ایک مکمل بلکہ جوہری جنگ تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ سرکاری جوہری ڈاکٹرائن کا اعلان نہ کرنے کے باوجود پاکستان کم سے کم قابل بھروسہ ڈیٹرنس (سی-ایم-ڈی) اور پہلے استعمال کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ سی-ایم-ڈی کا مطلب ہے کہ دشمن کے حملے کو روکنے (ڈیٹر) کرنے سے زیادہ ہتھیاروں کا نہ رکھنا ہے۔ تاہم کم سے کم سے مراد ہر گز یہ نہیں ہے کہ ہتھیاروں کی تعداد پر پابندی لگا دی گئی ہو۔یہ دونوں پالیسیاں پاکستان کےلئے کم وسائل اور علاقہ ہونے کی وجہ سے قابلِ عمل رہی ہیں۔ تاہم ہیلمت وان مولٹک کی عسکری کہاوت کے مطابق “کوئی جنگی منصوبہ کبھی بھی دشمن سے پہلے ٹکراؤ کے بعد قائم نہیں رہتا ہے”۔ اسی لئے پاکستان نے اپنے ڈاکٹرائن میں تبدیلیاں کی ہیں تاکہ ڈیٹرنس کے خلاء کو پُر کیا جا سکے۔ &
nbsp;۲۰۱۵ میں کارنیگی انڈاومنٹ فار انٹرنیشنل پیس میں بات چیت کرتے ہوئے جنرل قدوائی نے ملکی جوہری حکمتِ عملی کو بیان کرتے ہوئے فُل سپیکٹرم ڈیٹرنس کو تفصیل سے بیان کیا۔ انہوں نے کہا “جو اُن (بھارتیوں) کےلئے پرکشش تھا اور جس سے وہ روائتی جنگ کےلئے جگہ تلاش کر رہے تھے ، وہ داراصل فُل سپیکٹرم ڈیٹرنس کی غیر موجودگی کی وجہ سے تھا۔اور ہم اسے فُل سپیکٹرم ڈیٹرنس کا نام دیتے رہے ہیں”۔ جنرل قدوائی کے لیکچر کا شاخسانہ پاکستان کے شاہین –III زمین سے زمین اور ۲۷۵۰ کلومیٹر تک روائتی و جوہری ہتھیاروں کے ساتھ مار کرنے والے بیلسٹک میزائل کے کامیاب تجربے سے ملتا ہے۔ جنرل قدوائی کا کہنا تھا کہ میزائل اینڈامن اور نیکوبار جزیروں تک مار کر سکتا ہے۔ یہ بیانات وہ بھی ایک ایسےشخص کی جانب سے جو پاکستانی جوہری پروگرام سے وابستہ رہا ہو یہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان اب کاؤنٹر فورس (جوابی طاقت) صلاحیت کی جانب گامزن ہے۔ پاکستانی ڈاکٹرائن میں اس تبدیلی کی بڑی وجہ بھارتی نیشنل سکیورٹی ائڈوائزر اَجیت دَووَل کی دفاعی حملے کی تجویز ہے۔اگرچہ نظریاتی طور پر جوہری خطرات (عمومی/ذیلی) روائتی ٹاکرے کو روک نہیں سکتے تاہم یہ پاکستان کو اوپر بیان کئے گئے معاشی و سیاسی تھریش ہولڈ کو بچانے کی بیساکھی فراہم کرتے ہیں۔ مزید برآں پاکستان کا کم سے کم ڈیٹرنس سے فل سپیکٹرم ڈیٹرنس کی طرف جانا داراصل بھارتی بیلسٹک میزائل ڈیفنس سسٹم کی وجہ سے ہے۔ دفاعی نظام ایک ریاست کو دوسری جوہری ریاست کے خلاف عسکری چیلنجز سے نمٹنے کےلئے اعتماد دیتا ہے۔ گزشتہ جنوری میں پاکستان کی طرف سے آبدوز سے داغے گئے بابر-III کروز میزائل اور زمین سے زمین پر وار کرنے والے بیلسٹک میزائل ابابیل کے کامیاب تجربے کا مطلب تھا کہ پاکستان اپنی سیکنڈ سٹرائک کیپبلٹی (دوسرا حملہ کرنے کی صلاحیت) کو مضبوط بنا رہا ہے۔ آئی-ایس-پی-آر کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا “ابابیل جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت سے لیس ہے اور انتہائی درستگی کے ساتھ کئی ٹارگٹس کو نشانہ بنا سکتا ہے اور دشمن کے ریڈار کو شکست دے سکتا ہے۔ ابابیل میزائل سسٹم کا مقصدعلاقائی بیلسٹک میزائل ڈیفنس کے مقابلے میں پاکستانی بیلسٹک میزائلز کو قائم رکھنا ہے۔اس سے ڈیٹرنس کے عمل میں بھی مزید پختگی آئے گی”۔ یہ قابلِ فہم بات ہے کہ کاؤنٹر فورس صلاحیت قائم کرنا جنگی ڈاکٹرائن سے مطابقت رکھتا ہے اور ریاست نقصان کنٹرول کرنے کےلئے کچھ اقدامات کرتی ہے ۔اس میں کاؤنٹر فورس اور سیکنڈ سٹرائک کیپبلٹی (دوسرا حملہ کرنے کی صلاحیت) انتہائی اہم ستون ہے۔ پاکستان کی کوشش ہے کہ وہ اپنے جوہری ڈاکٹرائن کو محض جنگ سے بچنے کے بجائے جنگ لڑنے کی صلاحیت میں تیزی سے تبدیل کر لے۔ نسبتاً کمزور ریاست ہونے اور کئی طرح کے سکیورٹی مسائل میں گھرے ہونے کی وجہ سے پاکستان کےلئے مناسب ہو گاکہ وہ ایسے ڈاکٹرائن پر کام کرے جو اسے (محض دفاع کی بجائے) لڑنے کی صلاحیت سے لیس کرے۔ نئی دہلی کے بیانات اور پالیسی یہ بتاتی ہے کہ وہ پاکستان کو سزا دینا چاہتا ہے۔ سرحدی جھڑپیں اس صلاحیت کی غماز ہیں۔ ڈیوڈ سنگر کے مطابق (دشمن کا) ارادہ اور صلاحیت مل کر خطرے کی پوری تصویر پیش کرتے ہیں ۔ یقیناً اس طرح کی فضاء میں (قابلِ بھروسہ) کاؤنٹر فورس اور سیکنڈ سٹرائک کیپبلٹی نہ صرف ڈیٹرنس کو بڑھاتے ہیں بلکہ خطرناک جوہری جنگیں لڑنے کی نمایاں خصوصیت بھی ہے.
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment