Wednesday, January 26, 2022

فضائیہ کے اسپیشل مشن کے لیئے تیار کردہ فالکون 20

جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے کہ ڈیسالٹ فالکون 20 فرانس کا بنایا ہوا طیارہ ہے، یہ طیارہ اصل میں وی آئی پی ٹرانسپورٹ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جو کہ 14 مسافروں کو لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے، جبکہ دو پائلٹ اسے اڑاتے ہیں، اس طیارے میں دو ٹربو فین انجن نصب کیے گئے ہیں اور یہ طیارہ 862 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑ سکتا ہے۔ یہ طیارہ تقریبا 3350 کلومیٹر دور جا کر اپنا مشن سرانجام دے سکتا ہے، یعنی بھارت کے دوسری طرف سے گھوم کر اندر داخل ہو سکتا ہے، یہ طیارہ سات ٹن وزنی ہے جبکہ اضافی چھٹن وزن اٹھا سکتا ہے، یہ طیارہ پاکستان ایئر فورس میں بطور وی آئی پی ٹرانسپورٹ شامل ہوا تھا، 1986ء میں پاکستان کی فضائیہ نے تین ڈیسالٹ فالکوں خریدے تھے، اور کئی سال تک ان کو وی آئی پی ٹرانسپورٹ کے لیے استعمال کیا جاتا رہا، لیکن پھر اس کام کے لیے گلف سٹریم جیٹ خریدے گئے۔ گلف سٹریم جیٹ آنے کے بعد فالکون 20 کو وی آئی پی سروس سے نکال کر دوبارہ فرانس بھیجا گیا جہاں اس میں خاص تبدیلیاں کر کے اسے جنگی مقاصد کے لیے تیار کیا گیا، اس طیارے پر جدید ترین الیکٹرونک وارفیئر سسٹم، الیکٹرانک وارفیئر کاؤنٹر میسیرز، اور الیکٹرونک وارفیئر سپورٹ میسیرز کے آلات نصب کیئے گئے ہیں۔ یہ طیارہ ریڈاروں کو جام کرنے اور انھیں دھوکہ دینے کے ساتھ ساتھ اپنی حفاظت بھی کر سکتا ہے، پاکستان کے تینوں فالکون 20 کو پاک فضائیہ کا سکواڈرن نمبر 24 استعمال کرتا ہے، پاک فضائیہ نے ان طیاروں کو اپ گریڈ کر کے نہ صرف جدید ٹیکنالوجی حاصل کی بلکہ کئی ملین ڈالرز کی بچت بھی کی۔ اگر پاکستان اس مقصد کے لیے نئے طیارے خریدتا تو ملکی خزانے پر بوجھ پڑتا، کیونکہ جو طیارے اس مقصد کے لیے تیار کیے جاتے ہیں وہ کافی مہنگے ہوتے ہیں۔

وہ ہتھیار جو امریکہ کے بعد صرف پاکستان تیار کر سکا

لگتا ہے پاکستان کے ساتھ اللہ کا کوئی خاص ہی معاملہ ہے، اس ملک کو بھارت کی طرف سے بھی کئی طعنے  ملے، کہ پاکستان سوئی تک نہیں بنا سکتا، مگر پھر دنیا نے دیکھا کہ اس ملک نے دفاعی آلات و ہتھیاروں کی تیاری ملکی سطح پر شروع کی، ریڈار ایویونکس اور لڑاکا طیارہ بھی پاکستان خود بناتا ہے، یہاں تک کہ پاکستان نئے اور جدید ترین تربیتی طیاروں کے علاوہ پانچویں نسل کے لڑاکا طیارے بھی پاکستان خود بنانے جا رہا ہے۔ پاکستان آئندہ چند سالوں میں سٹیلتھ ٹیکنالوجی کے حامل مختلف قسم کے ہتھیار جن میں لڑاکا طیاروں کے علاوہ فریگیٹس آبدوزیں اور مزید میزائل شامل ہیں، بنانے کے قابل ہو جائے گا۔ میں یہاں صرف دو یا تین مثالیں دوں گا۔ ایٹم بم کی تیاری کے لیے جس مشین میں یورینیم کو افزودہ کیا جاتا ہے اس مشین کو سنٹری فیوج مشین کہتے ہیں، یہ نہایت تیزی سے گھومتی ہے اور ایک سیکنڈ میں کئی ہزار چکر لگاتی ہے، بعض وجوہات کی وجہ سے یہ صرف ایلومینیم سے ہی بن سکتی ہے، اور اپنی تیز ترین رفتار کی وجہ سے چند گھنٹوں میں ناکارہ ہو جاتی ہے۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس نے سنٹری فیوج مشین سٹیل کی بنائی ہے، جو کئی ہفتوں تک کارآمد رہتی ہے اس معاملے میں پاکستان نے امریکا سمیت دنیا کے سارے ممالک کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، پاکستان کی اپنی بنائی گئی اس سنٹری فیوج مشین کی مدد سے پاکستان یورینیم کو 97 فیصد تک افزودہ کر سکتا ہے، جس کے بعد آپ اس کو بے خطر ہو کر ہاتھ میں پکڑ سکتے ہیں کیونکہ اسکی تابکاری ختم ہو جاتی ہے۔ جبکہ بھارت یورینیم کو صرف 50 سے 60 فیصد تک افزودہ کر سکتا ہے، جس کے خطرناک تابکاری اثرات سے متاثر بھارتی ایٹمی پلانٹوں میں کام کرنے والے بہت سے مریض دیکھے جا سکتے ہیں، لیکن اس سے بھی زیادہ بڑا نقصان یہ ہے کہ کم افزودہ یورینیم مختلف عوامل کی بنا پر پھٹ سکتی ہے، مثال کے طور پر اگر کسی بھی بھارتی نیوکلیئر پلانٹ پر روایتی ہتھیاروں سے حملہ ہو تو وہ کسی ایٹمی دھماکے کی طرح پھٹے گا، لیکن پاکستان کی افزودہ شدہ یورینیم اس خامی سے پاک ہے۔ امریکہ نے کافی عرصہ پہلے یورینیم دھات کی ایک بھرت بنائی جو دنیا کی سخت ترین دھات بن گئی، اس دھات سے پھر امریکہ نے جنگی ٹینک بنانے شروع کر دیئے، عراق پر حملے کے دوران انہوں نے اپنے انہی ٹینکوں میں سے کچھ ٹینکوں کو بغداد میں داخل کیا جن پر صدام کی فوج نے اپنے سارے ہتھیار آزمائے، لیکن ان ٹینکوں پر ذرا اثر نہیں ہوا، جس کے بعد صدام کی فوج کے حوصلے پست ہوگئے۔ پاکستان امریکہ کے بعد دوسرا ملک ہے جس نے وہی یورینیم کا بھرت بنانے میں کامیابی حاصل کر لی ہے، مگر پاکستان فلحال ایسے ٹینک بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے، لیکن پاکستان نے اس دھات سے ایسے گولے ضرور بنا لیے ہیں جو ان ناقابل شکست امریکی جنگی ٹینکوں کو تباہ کرسکتے ہیں۔ ایٹم بم بنانے کے لئے ایک زنجیری عمل کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لیے یورینیم کی ایک خاص مقدار چاہیے ہوتی ہے،اس مقدار سے کم یورینیم کی صورت میں وہ زنجیری عمل شروع نہیں کیا جاسکتا، اس کم سے کم مقدار کو کریٹیکل لمٹ کہا جاتا ہے۔ اسی لیے ایٹم بم ہمیشہ بڑے حجم کے ہوتے ہیں اور ان کو صرف جہاز یا پھر میزائلوں کے ذریعے داغا جا سکتا ہے۔ اب تک کریٹیکل لمٹ سے کم مقدار سے ایٹم بم بنانے کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں، کچھ سال پہلے جب اسامہ کو پاکستان سے پکڑنے کا ڈرامہ رچایا گیا تو اس کے بعد امریکہ نے پاکستان کے خلاف نہایت جارحانہ رویہ اختیار کر لیا تھا، جس پر سابقہ صدر پرویز مشرف نے امریکہ میں بیٹھ کر کہا تھا کہ پاکستان نے کریٹیکل لمٹ سے کم یورینیم سے ایٹم بم تیار کرنے کی صلاحیت حاصل کر لی ہے، جس کو ایک بریف کیس میں لے جایا جاسکتا ہے۔ یہی دعوی پہلے روس میں بھی کیئے تھے لیکن پاکستان کے معاملے میں کچھ اور گواہیاں بھی سامنے آئی ہیں، جو کہ اگر سچ ثابت ہوئی تو پاکستان دنیا کی ان ساری بڑی طاقتوں کے لئے ایک بھیانک خواب بن جائے گا، کیونکہ اس صورت میں آپ جنگ کا خطرہ مول لیے بغیر اور ذمہ داری لیے بغیر کسی بھی ملک پر ایٹمی حملہ کر سکتے ہیں۔ بلاشبہ اس خبر نے امریکہ کے ہوش اڑا دئیے تھے، انکے بہت سے ماہرین نے اس کو پرویز مشرف کی امریکہ کو ڈرانے کی ایک چال قرار دیا، مگر سچائی اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن یہ ضرور ہوا کہ امریکی غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ اسامہ ہی کے واقعہ میں اطلاعات کے مطابق امریکہ نے سٹیلتھ ٹیکنالوجی کے حامل ہیلی کاپٹر استعمال کیے تھے جن کو ریڈاروں پر نہیں دیکھا جا سکتا، اس واقعے کے فوراً بعد امریکہ کی کچھ دھمکیوں کے جواب میں چوتھے دن پاکستان نے بابر میزائل کا کامیاب تجربہ کیا جوکہ سٹیلتھ ٹیکنالوجی کا حامل ہے، اور ریڈار پر نظر نہیں آتا، اس تجربے نے امریکہ کے ساتھ ساتھ بھارت کو بھی حیران کر دیا تھا کیونکہ پاکستان نے سٹیلتھ ٹیکنالوجی کا حامل ایک زیادہ خطرناک ہتھیار تیار کر لیا تھا، جس کی جدید صورت بابر تھری میزائل ہے۔ چند سال پہلے بھارت نے اسرائیل سے ایک انتہائی مہنگا اور جدید ترین ریڈار سسٹم خریدا تھا جو زمین پر اسلحے کے ڈپو یعنی زمین پر اسلحہ کی موجودگی کی نشاندہی کر سکتا ہے، جواب میں پاکستانی ماہرین نے کچھ ہی عرصہ میں نہایت کم خرچے سے ایک ایسا نیٹ ( جال نما ڈھال) تیار کرلیا جو کئی ہزار سینٹی گریڈ درجہ حرارت کو روکے رکھتا ہے اور جہاز سے نظر نہیں آتا، مختلف طرح کی لیزر شعاعوں کو بےکار کردیتا ہے، صرف اس نیٹ سے اپنا اسلحہ ڈھانپ لیں تو بھارت اور اسرائیل کا جدید ترین اسلحے کی نشاندہی کرنے والا سسٹم بے کار ہے۔ بے شک قائد اعظم محمد علی جناح نے بالکل ٹھیک فرمایا تھا کہ دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو ختم نہیں کر سکتی۔

Wednesday, March 24, 2021

جب پہلی بار پاک فوج کا امریکی فورس سے سامنا ہوا

بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ اس میں پاک فوج کا پہلی بار امریکی فورسز سے سامنا ہوا۔ اس حملے کے بارے میں امریکی مصنف باب ووڈ ورڈز اپنی کتاب "The Obama" میں لکھتا ہے: "فضائ حملے سے پہلے پاکستانی علاقے میں نیٹو فورسز داخل ہوئیں جس کے ردِعمل میں پاکستانی فوج کی طرف سے شدید فائرنگ کی گئ، اس غیرمتوقع حملے سے گبھرا کر نیٹو فورسز نے فورا" لڑاکا ہیلی کاپٹرز کی مدد حاصل کی اور پاکستانی چیک پوسٹس تباہ کردیں" اصل میں خیبرایجنسی کے سلالہ نامی علاقے میں آٹھ ہزار فٹ کی بلندی پر پاک فوج نے رات دن محنت کرکے دو پوسٹیں بنائ تھیں جن کی مدد سے افغان صوبہ کنٹر کی طرف سے پاکستان داخل ہونے والے دہشتگردوں پر نظر رکھی جا سکتی تھی. امریکا نے کئ بار ان چیک پوسٹوں پر اعتراض بھی کیا لیکن پاک فوج نے یہ پوسٹس برقرار رکھیں۔ جس کے جواب میں ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں کو نیٹو فورسز کی مدد سے بارڈر کراس کروایا جانے لگا۔ ان دنوں رات کے وقت اسی طرح کی ایک واردات میں نیٹو فورسز ٹی ٹی پی کے خوارج کو بارڈر کراس کروا رہی تھی کہ پاک فوج نے فائرنگ کر دی جس سے نیٹو فورسز کے کئ ارکان مارے گئے۔ جواب میں امریکی ہیلی کاپٹرز نے پاک فوج کی یہ چیک پوسٹس تباہ کردیں۔ (امریکا نے یہ بہانہ تراشا کہ ہم پر پاک فوج نے فائرنگ کی تھی جس کے جواب میں کاروائ کی)۔ نیٹو کا مقابلہ کرنے والے دو بہادر افسران میجر مجاہد علی میرانی شہید اور کیپٹن عثمان شہید اپنے24 ساتھیوں کے ہمراہ امریکی حملے میں شہید ہوئے۔ میجر مجاہد علی میرانی شہید نوڈیرو کے رہنے والے اپنے والدین کے چشم و چراغ تھے اور انکی چند دن بعد شادی کی جانی تھی، جبکہ کیپٹن عثمان شہید کا تعلق ساہیوال سے تھا اور ان کی ایک چند ماہ کی بیٹی بھی تھی۔ یہ دونوں بہادر افسران وہی تھے جن کی بدولت پاک فوج نے مہمندایجنسی سے دہشتگردوں کا صفایا کیا۔ کامیاب آپریشن کے بعد میجر مجاہد علی اور کیپٹن عثمان اسی علاقے میں قائم سلالہ پوسٹ میں تعینات ہوئے،اور انہوں نے سلالہ چیک پوسٹ سے افغانستان کی طرف سے ہونے والے کئ حملے ناکام بنائے۔ خدا افواج پاکستان کے شہداء کے درجات بلند فرمائے، جنہوں نے ہمارے روشن کل کے لیے اپنا آج قربان کر دیا۔ ##PAKSOLDIER_HAFEEZ

Monday, March 18, 2019

بھارت کی چودھراہٹ کا قاتل میزائل

اس آرٹیکل میں آپ کو بتایا جائے گا کہ پاکستان اور چین نے دشمن ممالک، خاص طور پر بھارتی اور امریکی طیارہ بردار بحری بیڑوں یعنی ائیر کرافٹ کیریئرز کے لیے کیا بندوبست کر رکھا ہے۔ بھارت کی ہمیشہ سے ہی کوشش رہی کہ وہ کسی طرح بھی پاکستان اور چین کو نیچا دکھا سکے،اس کے لیے بھارتی حکومت کو چاہے اپنی عوام کا حق مار کر اربوں ڈالر کے وہ ہتھیار ہی کیوں نہ خریدنے پڑیں جن کی ضرورت بھارت کو کبھی تھی ہی نہیں۔ بھارت ایسا ہی سوچ کر طیارہ بردار بیڑے بنانے میں لگ گیا،جن کی لاگت اربوں ڈالرز میں ہے،بھارت یہ طیارہ بردار بیڑے خود تیار کر رہا تھا مگر ضرورت پڑنے پر دوسرے ممالک سے بھی مدد لی گئی، مگر پھر بھی یہ ایئرکرافٹ کیئریر اس قابل نہیں کہ جدید میزائلوں سے خود کو بچا سکیں،کیونکہ ان بیڑوں میں خودکار حفاظتی نظام انتہائی ناقص ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ان طیارہ بردار بیڑوں میں درجنوں جنگی جہاز موجود ہوتے ہیں، اور ان کی حفاظت بھی بہت ضروری ہوتی ہے، کیونکہ دشمن اگر اس طیارہ بردار بیڑے کو تباہ کرنے میں کامیاب ہو جائے تو انتہائی مہنگے ائیر کرافٹ کیریئر کے علاوہ مہنگے ترین لڑاکا طیاروں سے بھی ہاتھ دھونا پڑ سکتے ہیں۔ اسی لیے یہ بیڑے وہی ممالک بناتے ہیں جن کے پاس ان کا بہترین حفاظتی نظام موجود ہو، بھارتی ایئرکرافٹ کیئریر “وکرانت” کے لیے امریکی ماہرین نے واضح طور پر کہہ رکھا ہے کہ یہ کچرے کے ڈھیر سے زیادہ کچھ نہیں, اس کا حفاظتی نظام اور اسے جس مٹیریل سے بنایا گیا ہے انتہائی ناقص ہیں, اور اسے کوئی بھی اینٹی شپ میزائل نشانہ بنا سکتا ہے. بھارت کے ایئرکرافٹ کیئریر پروگرام کے ساتھ ہی پاکستان نے چین سے جدیدترین ائیر کرافٹ کلر میزائل “CM-400AKG” کا سودا کرلیا، یہ میزائل لڑاکا طیارے سے فائر کیا جاسکتا ہے، اکثر اسے آپ لوگوں نے پاکستانی لڑاکا طیارے جے ایف سترہ کے ساتھ بھی دیکھا ہوگا۔ یہ میزائل پہلی بار 2013 میں یورپ میں منعقد ایک ایئر شو میں منظر عام پر لایا گیا، اس میزائل کے منظر عام پر آتے ہی یورپی میڈیا اس کی خصوصیات سے بہت متاثر ہوا، اس کی خوبیوں کو جاننے کے بعد مغرب کا یہ خیال تھا کہ چین نے یہ جدید میزائل امریکی ایئرکرافٹ کیریئرز اور ان کے حفاظتی نظام کو مدنظر رکھتے ہوئے بنایا ہے۔ یہاں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ میزائل کس قدر جدید اور خطرناک ہے، اس میزائل کی کچھ خاص باتیں یہ ہیں کہ اس کی رفتار تقریباً “Mach 5” تک ہے، اس ایک میزائل کا وزن تقریباً پچیس سو کلوگرام ہے، جبکہ اسکے وارہیڈ کا وزن 500 کلوگرام ہے۔ جبکہ اس کی رینج تقریباً 400 کلومیٹر تک ہے۔ اس میزائل میں موجود دھماکہ خیز مواد ایٹم بم بنانے والے یورینیم سے آلودہ ہوتا ہے، جو کہ دنیا کی کسی بھی سخت ترین چیز یا دھاتوں کو چند سیکنڈ میں پگھلا دیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس میزائل کو ایئرکرافٹ کیئریر کلر کا نام دیا گیا ہے۔ انتہائی ہلکا اور جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس یہ میزائل اپنے ہدف کی طرف بڑھتے ہوئے کبھی بھی ایک رستے پر سفر نہیں کرتا، جس کی وجہ سے اسے رستے میں مار گرانا ناممکن ہے۔ بحیرہ عرب میں بھارت اور امریکا کا گٹھ جوڑ اور نئے ایئرکرافٹ کیئریرز کی تیاری کو دیکھتے ہوئے پاکستان اور چین کو ایسے ہی جدید ترین میزائل کی ضرورت تھی، اس میزائل کی ایک اور بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کے ہلکا ہونے کی وجہ سے جے ایف سترہ لڑاکا طیارہ بیک وقت اس طرح کے 2 میزائل اپنے ساتھ لے جا سکتا ہے۔ اور ان میزائلوں کو دشمن کی پہنچ سے دور رہتے ہوئے فائر کیا جاسکتا ہے۔ اس میزائل نے نہ صرف خطے کے سمندروں میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے بلکہ بھارت کا سمندروں میں چودھراہٹ کا خواب بھی مٹی میں ملا دیا۔

Sunday, March 17, 2019

نشان حیدر

دس شہداء کو نشان حیدر ملا مگر تصاویر 11 ہوتی ہیں!! ۔ ۔ ۔ ▪ 3 مئی 1956ء کو صدر پاکستان نے نمایاں شہری اور فوجی خدمات کے اعتراف کے لئے مختلف تمغے قائم کرنے کا اعلان کیا۔ اس اعلان میں کہا گیا کہ ملک کا سب سے بڑا انعام فوج کا جنگی تمغہ ہوگا جس کا نام نشان حیدر ہو گا۔ یہ تمغہ مسلح افواج کے اس فردکو دیا جائے گا جس نے ملک کی حفاظت اور سلامتی کے لئے زبردست خطرات کا سامنا کرتے ہوئے بے حد بہادری اور زبردست ہمت کا مظاہرہ کیا ہو۔ اسی اعلامیے میں پاکستان کے شہریوں کے لئے بھی قومی اعزازات کے پانچ آرڈرز کے قیام کا اعلان بھی کیا گیا۔ جن کے نام آرڈر آف پاکستان‘ آرڈر آف شجاعت‘ آرڈر آف امتیاز‘ آرڈر آف قائداعظم اور آرڈر آف خدمت تھے۔ یہ بھی اعلان کیا گیا کہ ہر آرڈر تمغوں کے چار چار سلسلوں پر مشتمل ہو گا۔ جو نشان‘ ہلال‘ ستارہ اور تمغہ کہلائیں گے۔ اسی اعلامیہ میں آرڈر آف جرأت کے قیام کا اعلان بھی کیاگیا۔ بتایا گیا کہ آرڈر آف جرأت تین تمغوں پرمشتمل ہو گا جو ہلال جرأت‘ ستارہ جرأت اور تمغہ جرأت کہلائیں گے یہ تینوں تمغے صرف مسلح افواج کے ارکان کو دیئے جا سکیں گے۔ ہلال جرأت کا مقام فوجی تمغوں میں نشان حیدر کے بعد اور مجموعی تمغوں میں ہلال پاکستان کے بعد ہوگا۔ ▪ نشانِ حیدر پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ہے جو کہ اب تک پاک فوج کے دس شہداء کو مل چکا ہے۔ پاکستان کی فضائیہ کی تاریخ اور پاکستان کی بری فوج کے مطابق نشانِ حیدر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نام پر دیا جاتا ہے کیونکہ ان کا لقب حیدر تھا اور ان کی بہادری ضرب المثل ہے۔ یہ نشان صرف ان لوگوں کو دیا جاتا ہے، جو وطن کے لئے انتہائی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہید ہو چکے ہوں۔ نشانِ حیدر پاکستانی افواج کا عظیم ترین میڈل ہے جو برطانیہ کے سب سے بڑے فوجی اعزاز “وکٹوریہ کراس“ کے برابر اہمیت رکھتا ہے۔ نشان حیدر كے اس "اعزاز" كے ساتھ 5000 ہزار روپے یا 75 ایكڑ نہری زمین بھی دی جاتی ہے۔ اس اعزاز كے ساتھ الاؤنس ٣ نسلوں تك چلتے ہیں۔ نشان حیدر 5 كونی ستارہ ہے جو دشمن سے چھینی گئی گن کی دھات سے بنایا جاتا ہے۔ اس پر سفید اینمل اور كاپر، نكل دھات سے چاند ستارہ اور ڈیزائن بنا ہوتا ہے۔ ڈیزائن كے اوپر والے حصے پر نشان حیدر كے الفاظ كندہ ہوتے ہیں۔ اس كا ربن سبز رنگ كا ہوتا ہے اور یہ ڈیڑھ انچ چوڑا ہوتا ہے۔ میڈل کی پشت پر اس خوش بخت فوجی کے بارے میں مختصر تفصیلات درج ہوتی ہیں جسے یہ اعزاز دیا جاتا ہے۔ ان مختصر کوائف میں درج ذیل معلومات فراہم کی گئی ہوتی ہیں۔ 1:۔ شہید کا نام 2:۔ آرمی نمبر 3:۔ جائے شہادت 4:۔ تاریخِ شہادت 5:۔ تاریخِ ولادت ▪ آج تک پاکستان میں دس افراد کو نشانِ حیدر دیا گیا ہے جن کے نام درج ذیل ہیں۔ 1. کیپٹن محمد سرور شہید 2. میجر طفیل محمد شہید 3. میجر راجہ عزیز بھٹی شہید 4. میجر محمد اکرم شہید 5. پائیلٹ آفیسر راشد منہاس شہید 6. میجر شبیر شریف شہید 7. جوان سوار محمد حسین شہید 8. لانس نائیک محمد محفوظ شہید 9. کیپٹن کرنل شیر خان شہید 10. حوالدار لالک جان شہید ایک شخصیت ان کے علاوہ اور بھی ہیں جن کو نشانِ حیدر تو نہیں ملا لیکن "ہلالِ کشمیر" ملا جسے نشانِ حیدر کے برابر درجہ دیا گیا ہے۔ 11۔ نائیک سیف علی جنجوعہ شہید ان شہیدوں میں میجر طفیل نے سب سے بڑی عمر یعنی 44 سال میں شہادت پانے کے بعد نشان حیدر حاصل کیا، باقی فوجی جنہوں نے نشان حیدر حاصل کیا ان کی عمریں 40 سال سے بھی کم تھیں جبکہ سب سے کم عمر نشان حیدر پانے والے راشد منہاس تھے جنہوں نے اپنی تربیت میں 20 سال 6 ماہ کی عمر میں شہادت پر نشان حیدر اپنے نام کیا۔ اب-ان-شہداء-کے-بارے-میں-کچھ-تفصیل-پیش خدمت ہے۔ • 1 کیپٹن محمد سرور شہید! کیپٹن سرور شہید، 10 نومبر 1910ء کو موضع سنگھوری ، تحصیل گوجر خان ، ضلع راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ 1944ء میں آرمی کے انجیینر کور میں شامل ہوئے۔ 1946ء میں پنجاب رجمنٹ کی بٹالین میں کمپنی کمانڈر کی حیثیت سے ان کا تقرر ہوا۔ 1947ء میں ترقی کرکے کپٹن بنا دئیے گئے۔ 1948ء میں جب وہ پنجاب رجمنٹ کے سیکنڈ بٹالین میں کمپنی کمانڈر کے عہدے پر خدمات انجام دے رہے تھے، انہیں کشمیر میں آپریشن پر مامور کیا گیا۔ یہ 27 جولائی 1948ء کا واقعہ ہے جب انہوں نے اوڑی سیکٹر میں دشمن کی اہم فوجی پوزیشن پر حملہ کیا۔ جب وہ دشمن سے صرف 30 گز کے فاصلے پر پہنچے تو دشمن نے ان پر بھاری مشین گن ، دستی بم اور مارٹر گنوں سے فائرنگ شروع کر دی۔ اس حملے میں مجاہدین کی ایک بڑی تعداد شہید اور زخمی ہوئی۔ جوں جوں مجاہدین کی تعداد میں کمی آتی گئی ان کا جوش و جذبہ بڑھتا چلا گیا۔ پھر کپٹن راجا محمد سرور نے ایک توپچی کی گن کو خود سنبھالا اور دشمن پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ کپٹن سرور گولیوں کی بارش برساتے ہوئے بہت دور تک نکل گئے۔ اب دشمن کا مورچہ صرف 20 گز کے فاصلے پر تھا ۔ اس موقع پر اچانک انکشاف ہوا کہ دشمن نے اپنے مورچوں کو خاردار تاروں سے محفوظ کر لیا ہے۔ کپٹن سرور اس غیر متوقع صورت حال سے بالکل ہراساں نہ ہوئے اور برابر دشمن پر فائرنگ کرتے رہے۔ اس دوران میں اپنے ہاتھ سے دستی بم ایسا ٹھیک نشانے پر پھینکا کہ دشمن کی ایک میڈیم مشین گن کے پرزے اڑ گئے مگر اس حملے میں ان کا دایاں بازو شدید زخمی ہوا مگر وہ مسلسل حملے کرتے رہے۔ انہوں نے ایک ایسی برین گن کا چارج لیا جس کا جوان شہید ہو چکا تھا چنانچہ اپنے زخموں کی پروا کیے بغیر چھ ساتھیوں کی مدد سے خاردار تاروں کو عبور کرکے دشمن کے مورچے پر آخری حملہ کیا ۔ دشمن نے اس اچانک حملے کے بعد اپنی توپوں کارخ کپٹن سرور کی جانب کر دیا ۔ یوں ایک گولی کپٹن سرور کے سینے میں لگی اور انہوں نے وہاں شہادت پائی۔ مجاہدین نے جب انہیں شہید ہوتے دیکھا تو انہوں نے دشمن پر ایسا بھرپور حملہ کیا کہ وہ مورچے چھوڑ کر بھاگ گئے۔ • 2 . میجر طفیل محمد شہید! میجر طفیل محمد شہید (1914 - 7 اگست 1958) پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ہوشیار پور میں پیدا ہوئے۔ فوجی خدمات کے پیش نظر انہیں پاکستان کا اعلی ترین فوجی اعزاز نشان حیدر سے نوازا گیا۔میجر طفیل کے نام کی مناسبت سے قصبہ روڑالہ روڈ کے نزدیک ایک گاؤں کا نام طفیل شہید رکھا گیا۔ • 3 میجر راجہ عزیز بھٹی شہید ! میجر راجہ عزیز بھٹی شہید، پاکستان کے ایک بہادر سپاہی تھے جنہیں 1965 کی پاک بھارت جنگ میں بہادری پر فوج کا سب سے بڑا اعزاز نشان حیدر دیا گیا۔ آپ ہانگ کانگ میں پیدا ہوئے۔پاکستان بننے سے پہلے آپ پاکستان منتقل ہوئے اور ضلع گجرات کے گاؤں لادیں میں رہائش پذیر ہوئے۔ آپ نے پاکستان آرمی میں شمولیت اختیار کی اور 1950 میں پنجاب رجمینٹ میں شامل ہوئے۔1965 کی جنگ میں مشہور زمانہ بی آر بی نہر کے کنارے برکی میں ایک کمپنی کی کمان کر رہے تھے، نہر کے کنارے ایک مقام پر ہندوستان کی فوج قابض ہو گئی تھی، انہوں نے اپنے سپاہیوں کے ہمراہ مخالف فوج سے علاقہ واگزار کروا لیا مگر 12 ستمبر 1965 کو ہندوستانی فوج کے ٹینک کا ایک گولہ ان کو آ کر لگا جس سے ان کی شہادت ہوئی۔میجر عزیز بھٹی شہید کی جس وقت شہادت ہوئی ان کی عمر 37 سال تھی- • 4. میجر محمد اکرم شہید! میجر محمد اکرم (1938 – 1971) ضلع گجرات کے ایک گاؤں ڈنگہ میں پیدا ہوۓ۔ وہ پاکستان کے اعوان خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کو 1971ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان لڑی گئی ہلی کی جنگ میں بہادری کے کارنامے دکھانے پر پاکستان کا اعلی ترین فوجی اعزاز نشان حیدر سے نوازا گیا۔ 31 سال 8 ماہ کی عمر میں شہید ہونے والے میجر محمد اکرم کو مشرقی پاکستان (موجود بنگلہ دیش) میں ہی دفنایا گیا، البتہ بعد ازاں ان کے آبائی علاقے جہلم میں یاد گار تعمیر کی گئی۔ • 5. پائلٹ آفسیر راشد منہاس! راشد منہاس (17 فروری 1951– 20 اگست 1971) پاکستان کے شہر کراچی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 13 مارچ 1971 کو پاک فضائی میں شمولیت اختیار کی، اسی سال 20 اگست کو دوران تربیت ان کے استاد (انسٹرکٹر) مطیع الرحمن نے پاکستان کے جہاز کو اغواء کرکے پندوستان لے جانے کی کوشش کی تو جہاز کے کاک پٹ میں پہلے دست بدست لڑائی ہوئی بعد ازاں راشد منہاس نے جہاز کو ہندوستان کے بارڈر سے 51 کلومیٹر دور ہی زمین سے ٹکرا دیا جس سے ان کی شہادت ہوئی۔راشد منہاس فوج کا اعلیٰ ترین اعزاز نشان حیدر پانے والے کم عمر ترین فوجی ہیں شہادت کے وقت ان کی عمر صرف 20 سال اور 6 ماہ تھی جبکہ ان کو پاکستان ائر فورس کا حصہ بنے بھی صرف 5 ماہ ہوئے تھے- • 6 میجر شبیر شریف شہید! میجر شیبر شریف شہید 28 اپریل 1943 کو پنجاب کے ضلع گجرات میں ایک قصبے کنجاح میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے لاہور کے سینٹ انتھونی سکول سے او لیول کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھ رہے تھے جب انہیں پاکستان فوجی درسگاہ کاکول سے آرمی میں شمولیت کا اجازت نامہ ملا۔1971 میں جب مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں جنگ جاری تھی، تو پنجاب میں ہیڈ سلیمانکی کو ہندوستان کی فوج کے قبضے سے واگزار کروانے میں کامیابی حاصل کی اس جنگ میں ہندوستان کے 4 ٹینک تباہ، 42 فوجی ہلاک اور 28 قیدی بنائے گئے۔ملک کے بڑے رقبے کو پانی فراہم کرنے والے بند ہیڈ سلیمانکی پر حفاظت کے دوران ان کو ہندوستان کے ٹینک کا گولہ لگا جس سے 28 سال کی عمر میں ان کی شہادت ہوئی۔ 06 دسمبر 1971 کو وہ سلیمانکی ہیڈ ورکس پر پاکستانی فوج کے لئے ان کی بے لوث خدمات کے اعتراف میں انہیں پاکستان کے اعلی ترین فوجی اعزاز نشان حیدر سے نوازا گیا۔ • 7. جوان سوار محمد حسین شہید! جوان سوار محمد حسین جنجوعہ شہید 18 جون 1949 کو ضلع راولپنڈی کی تحصیل گجر خان کے ایک گاؤں ڈھوک پیر بخش (جو اب ان کے نام کی مناسبت سے ڈھوک محمد حسین جنجوعہ کے نام سے موسوم کی جا چکی ہے) میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 3 ستمبر 1966 کو محض سترہ سال کی کم عمری میں پاک فوج میں بطور ڈرائیور شمولیت اختیار کی اور ڈرائیور ہونے کے باوجود عملی جنگ میں بھر پور حصہ لیا۔انہوں نے پاک بھارت جنگ میں حصہ لیا۔1971 کی جنگ میں سیالکوٹ میں ظفر وال اور شکر گڑھ کے محاذ جنگ پر گولہ بارود کی ترسیل کرتے رہے، ان کی نشاندہی پر ہی پاک آرمی نے ہندوستان کی فوج کے 16 ٹینک تباہ کیے، 10 دسمبر 1971 کو شام 4 بجے بھارتی فوج کی مشین گن سے نکلی گولیاں ان کے سینے پر لگیں اور وہ وہیں خالق حقیقی سے جا ملے ۔ ان کی اسی بہادری کے اعتراف میں پاک فوج نے انہیں اعلی ترین فوجی اعزاز نشان حیدر سے نوازا۔جس وقت سوار محمد حسین کی شہادت ہوئی ان کی عمر محض 22 سال اور 6 ماہ تھی۔وہ پاک فوج کے پہلے سب سے نچلے رینک کے اہلکار یعنی سپاہی تھے جن کو ان کی بہادری پر نشان حیدر دیا گیا۔ • 8 . لانس نائیک محمد محفوظ شہید! لانس نائیک محمد محفوظ شہید ضلع راولپنڈی کے ایک گاؤں پنڈ ملکاں (اب محفوظ آباد) میں 25 اکتوبر 1944 کو پیدا ہوئے اور انہوں نے 25 اکتوبر 1962 کو پاک فوج میں شمولیت اختیار کی۔1971 کی جنگ میں ان کی تعیناتی واہگہ اٹاری سرحد پر تھی، وہ لائٹ مشین گن کے آپریٹر تھے، ہندوستان کی فوج کے شیلنگ سے ان کی مشین گن تباہ ہوئی جبکہ ان کی کمپنی (فوجی داستہ) مخالف فوج کی زد میں آگیا۔شیلنگ سے لانس نائیک محمد محفوظ کی دونوں ٹانگیں زخمی ہو گئیں انہوں نے اسی زخمی حالت میں ہندوستان کے ایک بنکر (جہاں سے پاکستانی فوج کو نشانہ بنایا جا رہا تھا) میں غیر مسلح حالت میں گھس کر حملہ کیا اور ایک ہندوستانی سپاہی کو گلے سے دبوچ لیا، البتہ ایک اور ہندوستانی فوجی نے ان پر خنجر سے حملہ کرکے انہیں شہید کر دیا۔لانس نائیک محمد محفوظ کی بہادری کا اعتراف ہندوستان کے فوجیوں نے بھی کیا۔ان کی شہادت کے بعد 23 مارچ 1972 کو بہادری پر سب سے بڑے فوجی اعزاز نشان حیدر انہوں سے نوازا گیا۔ • 9 . کیپٹن کرنل شیر خان شہید! کیپٹن کرنل شیر خان شہید (1970–1999) پاکستان کے صوبہ سرحد کے ضلع صوابی ایک گاؤں نواں کلی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 7 جولائی 1999 کو بھارت کے خلاف کارگل کے معرکے میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے پاک فوج کا اعلی ترین فوجی اعزاز نشانِ حیدر کا اعزاز حاصل کیا۔ • 10 . حوالدار لالک جان شہید! حوالدار لالک جان شہید (1967–1999) پاکستان کے صوبہ گلگت بلتستان میں سلسلہ کوہ ہندوکش کی وادی یاسین میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 7 جولائی 1999 کو بھارت کے خلاف کارگل کے معرکے میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے پاک فوج کا اعلی ترین فوجی اعزاز نشانِ حیدر کا اعزاز حاصل کیا۔ آپ کی مادری زبان کھوار تھی لیکن آپ کو بروشسکی اور شینا زبانوں پر بھی عبور حاصل تھا- • 11 . نائیک سیف علی جنجوعہ شہید! وطن کے لیے مر مٹنے والوں میں ایک نام نائیک سیف علی جنجوعہ شہید کا بھی ہے۔ سیف علی جنجوعہ مورخہ 25ا پر یل 1922ءکو موضع کھنڈہار تحصیل مینڈھر (کشمیر)میں پیدا ہو ئے کشمیر کی جنگ آزادی کے بعداب یہ علاقہ آزاد کشمیر کی تحصیل نکیال کی حدود میں آتا ہے اور کنٹرول لائن کے قریب واقع ہے اور موضع کھنڈہار،تحصیل فتح پور تھکیالہ (نکیال) ضلع کوٹلی آزاد کشمیر میں واقع ہے۔ 1948 کی جنگ میں سیف علی جنجوعہ نے جرات اور بہادر کی نئی داستانیں رقم کیں ۔ اور26 اکتوبر 1948ء وطن کی خاطر لڑتے ہوے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ انہیں اس جرات اور بہادری کے صلہ میں آزادجموں و کشمیر ڈیفنس کونسل نے آزاد کشمیر کے سب سے بڑے فوجی اعزاز”ہلالِ کشمیر“ سے نوازاجسے حکومت پاکستان نے 30نومبر 1995ءکو نشانِ حیدر کے برابر قرار دیا سیف علی جنجوعہ شہیدؒ آزاد کشمیر کا سب سے بڑا فوجی اعزاز حاصل کرنے والے پہلے شہید ہیں۔ تاج محمد خان اعوان کے والد جناب ریٹائرڈ صوبیدار عطامحمد ( ستارہ جراءت مرحوم ) بھی جناب میجر شبیرشریف شہید نشان حیدر کے شانہ بشانہ سلیمانکی سیکٹر میں ان کی کمپنی میں موجود تھے اور معمولی زخمی بھی ہوئے تھے انھیں بھی بے مثال جراءت اور بہادری کے صلے میں آرمی کے تیسرے بڑے اعزاز ستارہ جراءت سے نوازا گیا ۔ ##PAKSOLDIER_HAFEEZ

ایک گمنام کی داستان

ایک گمنام ہیرو کی لہو گرما دینے والی داستان، دنیا آج تک نہیں جان پائی وہ کون تھا۔ ارے بھئی یہ کسی آٹھویں پاس کی داستان نہیں بلکہ ایک ایسے لیجنڈ پاکستانی بمبار پائلٹ کی داستان ہے جو ایک ہیرو تو بنا لیکن آج تک کوئی اس کا نام نہ جان سکا اور یہ ہیرو تاریخ میں گمنامی کی چادر اوڑھے ہی دفن ہو گیا۔ 1965 میں جب پاک، بھارت جنگ شروع ہوئی تو پاکستان کے بی 57 بمبار طیاروں نے رات کے اندھیرے میں بھارتی اڈوں پر ہلا بول دیا۔ بمبار طیارے عام طور پر بہت بھاری بھرکم ہوتے ہیں اور وہ دشمن کی توپوں اور طیاروں سے بچنے کے لئے زیادہ پھرتی نہیں دکھا پاتے، اس لیے ان کے حملے رات کے اندھیرے میں ہوتے ہیں۔ اور یہ طیارے زمین کے پاس پاس ریڈار کی نگاہ سے بچ کر اڑتے ہوئے اپنے ہدف تک پہنچتے ہیں اور ہدف پر پہنچ کر یک دم طیارہ اوپر کھینچ کر ہدف پر ڈائیو کرتے ہیں اور ایک ہی حملے میں اپنے تمام بم گراتے ہوئے دشمن کے ہوشیار ہونے سے پہلے اس کی توپوں کی رینج سے باہر ہو چکے ہوتے ہیں۔ پاکستانی بی 57 طیارے 500 پاؤنڈ کے آٹھ بم لے کر جاتے تھے اور اسی طریقہ کو فالو کرتے ہوئے ایک ہی حملے میں آٹھوں بم گراتے ہوئے آگے نکل جاتے تھے۔ لیکن ایسے حملے میں لازمی نہیں ہوتا تھا کہ سارے بم ہی نشانے پر گریں۔ اکثر ایسا ہوتا کہ دو بم ایک ہی ٹارگٹ پر جا گرتے۔ جس کی وجہ سے ایکوریسی تو کم رہتی تھی لیکن یہ حملہ کرنے کا انتہائی محفوظ طریقہ تھا۔ لیکن بھارتیوں کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب جنگ کی پہلی ہی رات آدم پور ائیر بیس پر ایک اکیلے بی 57 طیارے نے حملہ کیا۔ یہ طیارہ اور اس کا پائلٹ کوئی عام پائلٹ نہیں تھا۔ ہوا کچھ یوں کہ طیارہ نے پہلے غوطہ لگایا اور صرف ایک بم گرا کر آگے بڑھ گیا۔ بھارتیوں کا پہلا ری ایکشن یہی تھا کہ باقی بم کسی خرابی کی وجہ سے نہیں گر سکے۔ لیکن وہ ششدر رہ گئے کہ جب بمبار طیارہ دوبارہ گھوم کر واپس آیا۔ اس نے پھر غوطہ لگایا اور ایک اور بم تاک کر ایک اور نشانے پر گرایا اور آگے نکل گیا۔ اس دوران بھارتی طیارہ شکن توپوں نے ہوا میں گولیوں کا جال بن دیا تھا لیکن بمبار طیارے کے پائلٹ کو کوئی جلدی نہیں تھی اور نہ ہی اسے اپنی جان پر کوئی خوف تھا۔ وہ پھر واپس آیا ایک بم ایک اور نشانے پر انتہائی ایکوریسی سے گرایا اور آگے نکل گیا۔ یوں اس بمبار طیارے نے ہر ایک بم کو گرانے کے لیے الگ سے واپس آ کر غوطہ لگایا اور بم کو پورے غور فکر کے ساتھ تاک کر نشانے پر پھینکا۔ اس طرح اس نے اپنی جان کو خطرے میں ضرور ڈالا تھا لیکن اس کے آٹھوں بم آٹھ انتہائی اہم ہدف تباہ کر چکے تھے یوں اس کی ایکوریسی 100 فیصد رہی تھی۔ اس حملے کے بعد بھارتیوں کی جانب سے اس بمبار پائلٹ کو "ایٹ پاس چارلی" کا نام دیا گیا۔ پوری جنگ کے دوران ایٹ پاس چارلی مختلف اڈوں پر حملے کرتا رہا۔ وہ ہمیشہ اکیلا آتا تھا اور پہلے بم کے ساتھ ہی وہ بھارتیوں کو کھلا چیلنج دیتا کہ میں نے ابھی سات چکر اور لگانے ہیں، تم سے جو ہوتا ہے کر کے دیکھ لو اور یہ اس پائلٹ کی مہارت کی انتہا تھی کہ کبھی کسی طیارہ شکن گن کی گولی اسے چھو بھی نہ سکی۔ دشمن کو دھوکے میں ڈالنے کے لیے ایٹ پاس چارلی ایک انوکھا کام کیا کرتا تھا۔ اندھیری رات میں طیارہ تو دکھائی دیتا نہیں تھا تو دشمن کے توپچی طیارے کی آواز سن کر اندازہ لگاتے تھے کہ طیارہ کس جانب سے آرہا ہے۔ ان توپچیوں کو پریشان کرنے کے لیے غوطہ لگاتے وقت چارلی اپنے انجن بند کر دیتا۔ اگرچہ اس کی وجہ سے طیارہ سنبھال پانا بہت مشکل ہو جاتا لیکن بھارتی توپچیوں کو طیارے کا اس وقت پتہ چلتا جب وہ بم گرا چکا ہوتا اور اس کے بعد وہ انجن آن کر کے پلک جھپکتے ہی ان کی رینج سے باہر نکل چکا ہوتا تھا۔ ایٹ پاس چارلی کے بارے میں ایک بھارتی پائلٹ پیڈی ارل (Paddy Earl) کے الفاظ یہ ہیں۔ "I have the utmost respect for the Pakistani Bomber bloke who loved to ruin the equanimity of our dreary lives! 8-Pass Charlie was an ace, but he had this nasty habit of turning up about 30 min. after moonrise, just as we were downing our first drink! Seriously, he was a cool dude and a professional of the highest order. To disguise the direction of his run, he used to cut throttles before entering a dive and by the time the ack-ack opened up he was beneath the umbrella of fire. After dropping his load he'd apply full throttle and climb out above the umbrella." ترجمہ: میں اس پاکستانی بمبار پائلٹ کے لیے انتہائی عزت کے جذبات رکھتا ہوں جسے ہماری زندگیوں کا سکون برباد کرنا انتہائی پسند تھا۔ ایٹ پاس چارلی ایک ایس (لیجنڈ) تھا لیکن اس کی یہ عادت بہت بری تھی کہ وہ چاند نکلنے کے ٹھیک 30 منٹ بعد اپنے ہدف پر پہنچ جاتا۔ عین اس وقت جب ہم اپنے پہلے جام ختم کر رہے ہوتے تھے۔ وہ ایک اونچے ترین درجے کا انتہائی پروفیشنل پائلٹ تھا۔ اپنے حملے کی سمت چھپانے کے لیے وہ غوطہ لگانے سے پہلے انجن بند کر دیتا اور جب تک توپچی فائر کھولتے وہ پھٹتے گولوں کی چھتری سے نیچے آ چکا ہوتا تھا اور بم گرانے کے بعد وہ انجن کو فل پاوور پر کر کے گولیوں کی رینج سے باہر نکل جاتا۔ Quote taken from PVS Jagan Mohan and Samir Chopra's The India-Pakistan Air War of 1965 (Manohar Books, 2005)۔ لیکن اپنے دشمنوں کی جانب سے ایٹ پاس چارلی کا نام پانے والا یہ پائلٹ کبھی منظر عام پر نہیں آیا۔ اور آج تک کوئی نہیں جانتا کہ یہ پائلٹ کون تھا۔ ہاں سب کو یہ ضرور یاد ہے کہ کوئی تھا جسے دشمن کا سکون برباد کرنے میں عجیب سا مزہ آتا تھا۔ شوق پرواز کا رکھتے ھو تو شاہین بنو، یوں تو کوے بھی فضاؤں میں اڑا کرتے ھیں۔۔۔ نعرہ تکبیر اللہ اکبر #پاک_فوج_زندہ_باد #پاکستان_پائندہ_باد #PAKSOLDIER_HAFEEZ

Friday, March 15, 2019

جب امریکہ کو 18 سال بعد شکست آئی

اب بات کچھ ایسی ہے کے اس وقت اسرائیل کی ملٹری انٹیلیجنس اور موساد کے ایجنٹس اس وقت پوری قوت سے پاکستان کے خلاف سرگرم ہو چکے ہیں ویسے تو پہلے بھی بھارت اور پاکستان کا بہت سے محازوں پر آمنا سامنا ہوا ہے لیکن اس بار کا آمنا سامنا کچھ اور منظر نامہ سامنے لا رہا ہے جب امریکہ کو ۱۷ سال بعد #افغانستان میں شکست ہوئی اور امریکہ کو اس بات کو ماننا پڑا کے افغان مسئلہ جنگ سے نہی بلکہ مزاکرات سے حل ہو گا تو امریکہ اس بات کو بھی اچھی طرح جان چکا تھا کہ اس کی اس ہار کے پیچھے صرف ایک نام ہے اور وہ دنیا کی نمبر ون ایجنسی آئی ایس آئی ہے کہتے ہیں جس کے منہ پر تھپڑ پڑے وہ کبھی نہی بھولتا کہ مجھے فلاں وقت فلاں بندے نے ان ان لوگوں کے سامنے منہ پر تھپڑ مارا تھا اور اس طاق میں رہتا ہے کہ مجھے اس تھپڑ کا بدلہ لینا ہے امریکہ کا بھی افغانستان سے انخلاء کے فیصلے کے بعد کچھ ایسا کی عالم ہے اور اس وقت امریکہ پاگل سانڈہ کی طرح در بدر کی دیواروں پر ٹکریں مار رہا ہے اور اپنے اتحادیوں سے پاکستان کو توڑنے کے کام لے رہا ہے یہ گزشتہ دونوں ہونے والی بھارتی جارہیت بھی اسی کی ایک کڑی ہے اور اسرائیل کا وجود بھارت میں اس بات کو ظاہر کر رہا ہے کہ اس پیچھے سپورٹ صرف اور صرف امریکہ کی ہے آپ سب کو یہ جان کر بھی حیرت ہوگی کہ مائیک پومپیو نامی امریکا شخص جسکا گزشتہ حالات میں دونوں ممالک میں جنگ بندی کرانے میں اہم کردار رہا ہے وہ شخص بھی پس پردہ اسرائیلی انٹیلیجنس کا کہ مایہ ناز ایجنٹ ہے ۔۔۔!!! خیر اب جب یہ بات سو فیصد ثابت ہو چکی ہے کہ بھارتی جارہیت کے پیچھے اسرائیل اور امریکہ دونوں ہیں تو کچھ حقائق یہ بھی سامنے آئیں ہیں کہ امریکا اور اسرائیلی ایجنٹس اس وقت مل کر بھارت کو پراکسی لڑنے کے اپنے تجربات سے استفادہ دے رہے ہیں اور بھارت کے ۲۵۰ کے قریب ہائی رینک ملٹری انٹیلیجنس کے آفیسر کو اس وقت بھارت میں ٹریننگ دی جا رہی اور بتایا جا رہا ہے یہ سب آنے والے کچھ مہینوں میں پاکستان میں ایک نئی پراکسی کو اجاگر کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے جہاں اس وقت یہ ایجنٹس بھارت میں سرگرم ہیں وہاں انکی کچھ شاخیں اس وقت پاکستان میں بھی اس کام پر مکمل طور پر سرگرم ہوچکی ہیں اور وہ شاخیں ہمارا لبلرل اور سیکیولر طبقہ ہوگا جو اس سارے مشن میں اسرائیل امریکہ اور بھارت کے دیگر ایجنڈوں کو پاکستان پر مسلط کرنے میں مدد فراہم کرے گا اس ایجنڈے کے اہم نقطے آپ سے شیئر کرنا چاہوں گا۔۔!! •نمبر ایک: غزوہ ہند پر عجیب غریب قسم کر سوالات کھڑے کیے جائیں گیں جس سے پاکستانی عوام کو غزوہ ہند کے متعلق جھوٹ اور منفی قسم کی انفارمیشن کے مطابق گمراہ کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔۔۔!!! •نمبر دو: اسرائیل کو پاکستان سے ایک ریاست تسلیم کروانے کی کوشش کی جائے گی ۔۔۔!!! اور بہت سے دیگر پروپیگنڈے اس تحریک کا حصہ ہو سکتے ہیں ساتھ ہی ساتھ افواج پاکستان کو سرحدی محاذ پر بھی مسلسل انگیج رکھنے کی کوشش کی جائے گی تاکہ اپنے ایجنڈے کو مسلط کرنے میں آسانی پیدا ہو اور ایجنڈا پھیلانے والے بظاہر تو ہم جیسے پاکستانی دکھائی دے رہے ہونگے لیکن ان کی ڈوریں امریکہ اسرائیل اور بھارت ک ہاتھ میں ہونگی ٹھیک اسی طرح جسطرح منظور پشتین نامی تحریک کو اجاگر کیا گیا لیکن منظور پشتین نامی تحریک سے زیادہ اثر اس تحریک کا ہو گا اس میں اس ملک میں رہنے والے بہت سے قادیانی بھی امریکہ اسرائیل اور بھارت کو باقاعدہ طور پر مدد فراہم کریں گے اور زورو شور سے اس تحریک کو پوری قوت کے ساتھ پاکستان میں لانچ کیا جائے گا ۔۔۔۔!!! #اب جب آنے والے حالات کی کچھ جھلکیوں سے میں آپ کو آگاہ کر چکا ہوں تو بحثیت ایک محب وطن پاکستانی اس آگاہی سے ہمیں کیسے دوشمنوں کے اس ایجنڈے کو بے نقاب کرنا ہے سب سے پہلے ہم سب نے ایک ہو کر رہنا ہے ہماری زبانیں ایک بات پر قائم رہیں اور وہ افواج پاکستان کی سپورٹ اور حوصلہ افزائی ہے دوسری طرف اگر آپ کو نیوز چینلز اور سوشل میڈیا پر اگر افواج پاکستان اور غزوہ ہند سے متعلق بینات پر اکسانے کی کوشش کی جائے تو مکمل طور پر ایسے ذریعے کو رد کریں اور اسکے خلاف اپنے قلم اور اپنے علم سے جواب دیں اگر آپ ایسا نہی کر سکتے تو اسے رپورٹ کریں یا پھر اس جھوٹے اور غلط بیانیے کو شیئر کرنے سے گریز کریں اور خاموش رہیں ۔۔۔!!!! اور کسی قسم کے فرقے کے خلاف کسی مذہب کے خلاف بات کرنے سے گریز کریں یہ سب ایسی چنگاریاں ہیں جس نے پہلے بھی بہت نقصان دیا ہے اس ملک کو اور بہت سی معصوم جانوں کو ضیاء ہوا ہے اور تقریبا ۷۰ ہزار کے قریب جانوں کی قربانیوں کے بعد اس ملک میں امن آیا ہے اور اس امن کو اب ہم نے قائم قائم رکھنا ہے اور افواج پاکستان اور ملک کی غیور عوام کی قربانیوں کی لاج رکھنی ہے تاکہ اب پاکستان ایک معاشی اور ایک مظبوط مزہبی ریاست بن کے ہمارے دوشمنوں کے سینوں کو چیر کر دنیا کے نقشے پر ابھرے ۔۔۔!!! باقی اس ملک کے پاک ادارے جانتے ہیں کہ کس وقت کس جگہ اور کیسے دوشمنوں کو زیر کرنا ہے لحاظہ اس سب میں آپکی سپورٹ درکار ہے اور دوشمن کے ایجنڈے کے خلاف یک زبان ہونا درکار ہے یہ دو ایسی چیزیں ہیں جو افواج پاکستان کے پاک اداروں کے لیے بہت حوصلے کا باعث بنتی ہیں شکریہ ۔۔۔!!! #PAKSOLDIER_HAFEEZ